آج نویں یا دسویں جما عت کے طا لب علم سے موبا ئل فو ن لیکر کتاب اس کے ہاتھ میں دیدو وہ قبول نہیں کرے گا اگر باپ یا استاد ہونے کا واسطہ دے کر آپ نے بچے کو سمجھا نے کی کو شش کی تو الٹا وہ آپ کو سمجھا نے میں کا میاب ہو گا کہ آج کا دور کتاب کا دور نہیں یہ انٹر نیٹ اور سمارٹ فو ن کا زما نہ ہے تم دقیا نوس کے زما نے کی باتیں نہ کرومیرا سمارٹ فو ن واپس کر و ہمارے ہم جماعت دوست جب بھی ملتے ہیں 1966ء میں سکول کے کتب خا نے سے لیکر پڑھی ہوئی کتابوں کا ذکر کرتے ہیں، ہم نے مو لا نا حا لی کی مسدس، نسیم حجا زی کے نا ول اور علامہ اقبال کی بانگ درا سکول کے کتب خا نے سے لیکر پڑ ھی تھی ہم ہفتے میں ایک کتاب لیتے تھے اگلے ہفتے اُسکو واپس کر کے دوسری کتاب لا تے تھے ایک استاد سکول کے کتب خا نے کا ذمہ دار ہوا کر تا تھا لمبی چھٹیوں پر گھر جا تے وقت ہم اصرار کر تے تھے کہ استاد ہمیں ایک ساتھ 10کتا بیں دے دے اور چھٹیوں کے بعد جر ما نہ کے بغیر واپس لے لے۔ استاد کہتا تھا ایک ہی دن دو قوا نین توڑ ے نہیں جاتے ہفتہ سے زیا دمدت کیلئے کتاب دینے کا قانون نہیں ہے۔ ہفتہ سے زیا دہ مدت گذرے تو جر ما نہ لگنا قانون ہے یہ نہیں ہو سکتا۔
گزشتہ روز ہماری جما عت کے چار دوست اکٹھے ہوئے 56 سال پرا نی یا دوں کو تا زہ کرنے کیلئے سکول گئے۔ لا ئبریری کو تلا ش کیا تو لائبریری نہیں ملی، ہمیں بتا یا گیا کہ لائبریری ختم ہو چکی ہے ہمارے ساتھی کو یاد تھا لائبریری میں 2800کتا بیں تھیں‘وقت کی رفتار کے حساب سے اب اس لائبریری میں کم از کم 10ہزار کتا بیں جمع ہو نی لا زمی تھی مگر وقت آگے نکل گیا سکول پیچھے رہ گیا، 1966ء میں معائنہ ٓافیسر سکول کا معائنہ کر تا تو پورا دن لائبریری میں گذار تا تھا‘ انگریزوں کے قواعد و ضوابط اور طور طریقے لو گوں کو یا د تھے انگریز آفیسر کتا بوں کا حد درجہ شو قین ہو تا تھا وہ لالٹین کی مدھم روشنی میں آدھی رات تک کتا ب پڑھتا تھا یا کتاب لکھتا تھا ہم نے کمرے میں چار چار ٹیوب لا ئٹ لگا ئے ہیں 200واٹ کا بلب الگ جل رہا ہے لیکن کتا ب پڑھنے کو جی نہیں چاہتا‘ سکولوں میں نہ کتب خا نے ہیں نہ طلبہ کو کتب خانے کا پیریڈ یعنی لائبریری آور دیا جا تا ہے سکول کے ٹا ئم ٹیبل سے کتب خا نے کا پیریڈ نکا ل دیا گیا ہے ہم نے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے مڑ نے اور واپسی کا سفر اختیار کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کی ہوئی ہے 1966ء میں ہم ساتویں جما عت میں پڑھتے تھے ہمارے کمرہ جماعت میں چار نقشے تھے، دنیا کا نقشہ الگ تھا ایشیا کا نقشہ الگ تھا۔
پا کستان کانقشہ بھی تھا ہمارے ضلع کا نقشہ بھی تھا آج آپ 10سکو لوں کا دورہ کریں آپ کو کسی سکول کے کسی بھی کلا س روم میں کوئی نقشہ نہیں ملے گا ہمارے بیٹے 1991ء میں جس نجی سکول میں پڑھتے تھے اُس نجی سکول کا پرنسپل مسٹر رچرڈ ایلیسن بر طا نوی شہری تھا۔ اُس نے سکول میں ریسورس روم بنا یا ہوا تھا اُس کمرے میں کھلونے تھے، ڈرائنگ کا سامان تھا اور سینکڑوں کتابیں تھیں وہ چو تھی جماعت کے طا لب علموں کو 3دنوں کیلئے کہانیوں کی کتا بیں دیتا تھا کہا نیوں کی ان کتابوں نے بچوں کے اندر پڑھنے کا شوق پیدا کیا یہ رچرڈ ایلیسن کا کما ل ہے کہ اُس نے 3 سالوں میں بچوں کے اندر کتاب سے دوستی کا جذبہ اجا گر کیا‘ اگر کسی سُہا نی صبح یا چا ندنی رات کو تعلیم کے کسی وزیر سے اچا نک ملا قات نصیب ہو تو میں ایک ہی بات کہوں گا جناب عالی! سکو لوں میں کتب خانے کا رواج واپس لاؤ کبھی دفتر سے با ہر نکلنے کا موقع ملے تو کسی سکول میں جا کر لا ئبریری ڈھونڈو‘ ناکام لوٹنے سے پہلے کسی ایک سکول میں لائبریری کھو لنے کا حکم دو، کیونکہ تعلیم کا کتب خانے سے براہ راست تعلق ہے۔