بجلی نہیں ہوتی۔صبح جاتی ہے اور دن ڈھلے شام لوٹ آ جاتی ہے۔اگر اس دوران لائٹ ہو تو گھنٹہ بھر اس کی زندگی ہوتی ہے۔مگر اس کی ضمانت کسی کے پاس نہیں کہ جانے کب تک رہے۔پھر گھنٹے کے اندر ہی اندر دوبارہ سے یوں غائب ہو جائے جیسے گدھے کے سر پرسے سینگ غائب ہیں۔ بجلی کو تو ہم لوگ جیسے ترس سے گئے ہیں۔ موبائل میں چارج نہیں۔ موبائل تو ہمہ وقت مصروف رہنے والا مشینی آلہ ہے۔جس میں تعلیم کے حوالے سے کچھ نہ کچھ دیکھتے رہتے ہیں۔ مگر افسوس کہ اب تو چارجر بھی لے کر ساتھ گھومنا پڑتا ہے۔کسی کے گھر گئے تو چارج پرلگا دیتے ہیں۔چلو اتنی دیر میں موبائل میں چارج بھی پورا کر لیں گے۔ کوئی جگہ اس لوڈ شیڈنگ سے محفوظ نہیں۔ کم ہی علاقے خوش قسمت مقامات تصور کئے جائیں جہاں بجلی ہمہ وقت اپنی موجودگی کاان دیکھا اور نا محسوس احساس دلاتی ہے۔اگر اب سردیوں میں یہی تماشا ہے تو گرمیاں سر پر ہیں۔
جانے تپش کے دنوں میں جب پسینہ ماتھے کے بوسے لے گا تب ہمارا جیون کیسے گذر پائے گا۔اگر یہ آزمانا ہے تو یہ آزمانا کا ہے کا۔پھر اگر ستانا ہے تو سمجھ میں آتا ہے۔کیونکہ بجلی کی چوری زوروں پر ہے۔بجلی کے معاملات پورے ہو چکے ہیں۔ہمارے ہاں ہماری ضرورت سے زیادہ بجلی موجود ہے۔مگر مسئلہ کچھ اور ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بجلی کی چوری عام سی بات ہوگئی ہے۔سو جب واپڈا والے اس چوری چکاری پر قابو نہیں پا سکتے تو مجبور ہو کر وہ بجلی بندش کاسہارا لیتے ہیں۔۔ خاص طور ان علاقو ں میں توبجلی کا یہ بندر تماشا عام طور سے ہوتا ہے جہاں بجلی کی چوری کی شکایات ہیں۔ ٹھیک ہے اس میں محکمہ لوڈ شیڈنگ کا قصور نہیں۔مگر وہ لوگ جو بجلی کا بل دیتے ہیں وہ کیوں اس سزا میں شریک کر دیئے گئے ہیں۔ان کو ایسے جرم کی سزا کیوں دی جارہی ہے جو انھوں نے کیا ہی نہیں۔کہاجاتا ہے کہ بجلی چوروں کے لئے ہمارے پاس کوئی بجلی نہیں۔مگر جو بجلی نہیں چراتے وہ کیوں شاملِ سزاہیں۔گھرو ں میں زنانیاں پریشان۔یوں کہ ان کے تو ناک میں دم ہوگیا ہے۔
صبح سویرے انھوں نے میلے کپڑوں کے ڈھیر لگا دیئے اور سب تیاری کر لی کہ جلد ہی مشین لگا کر جلدی کپڑے دھونے کا کا م ختم کر لیں گے۔ مگر جو ں صبح کا سورج کرنوں کے سائے بکھیرے لگے تو تڑاق سے بجلی غائب ہو جاتی ہے۔پورے گھرمیں صبح سویرے سورج کے ہوتے سوتے در ودیوار کی چھاؤں میں اندھیروں کا راج ہونے لگتا ہے۔کپڑے کے ڈھیر جو زمین پربچھائے گئے ہوتے ہیں ویسے ہی پڑے رہتے ہیں۔بجلی جاکر شام کو آتی ہے۔کہتے ہیں بجلی خراب ہے ٹھیک کررہے ہیں۔تاریں درست ہو رہی ہیں۔کون سی ایسی خرابی ہے جو اب تک سالوں ہونے کو آئے ٹھیک نہیں ہو پا رہی۔ ٹھیک کہ بجلی چرانا برا اور جرم۔مگر جو بجلی نہیں چراتے ان کے لئے بھی تو کچھ فکر کریں۔ نئی نئی تراکیب سوچی جا رہی ہیں کہ میٹر میں موبائل فون کارڈ جیسا بیلنس ڈالا جائے گا۔ جتنے پیسے دو گے اتنی بجلی ملے گی۔ مگر وہ بھی ان سے ہو نہیں پا رہا۔ہمارے جرمنی والے دوست اپنے شہر پشاور آئے ہوئے ہیں۔ وہ حیران ہیں کہ بجلی کیوں جاتی ہے۔وہاں تو ایسا نہیں۔ اتفاق سے لندن والے دوست بھی ان دنوں جرمنی والے دوست کی طرح اپنے پیدائشی شہر کی یاترا پرشہرِ گل میں موجودہیں۔ وہ بھی حیران ہیں کہ یار لندن میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں تو جیسے گھروں میں کمروں کی دیواریں کھڑی ہیں ایسے ہی میں گذشتہ چالیس سال سے دیکھ رہاہوں کہ ایک بار بھی بجلی غائب نہیں ہوئی۔وہ پوچھتے ہیں کہ یہ تو بتلاؤ کہ یہ گئی کہاں۔کیوں گئی۔ہم انھیں کیا جھوٹ موٹ سمجھائیں کہ ہمارے ہاں ہمارے ملک میں توانائی کابحران ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی توانائی کا بحران وغیرہ نہیں۔مسئلہ تو بجلی کی چوری کا ہے۔