متوازن پالیسی 

دنیا میں وہی اقوام کامیاب رہتی ہیں جو بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے متوازن پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔کسی وقت ہم نے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کی پالیسی اپنائی تھی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔یہ بہت اچھا ہوا کہ اب پاکستان نے متوازن اور غیر جانبدار پالیسی اپنائی ہے اور عالمی طاقتوں میں سے کسی ایک کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو دوسرے کا نشانہ بننے سے روک رکھا ہے۔ روس اور امریکہ اس وقت یوکرائن میں نبرد آزما ہیں۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی ہنگامی اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کے منشور کے بنیادی اصولوں پر یقین رکھتا ہے جن میں عوام کا استصواب رائے کا حق، طاقت کا عدم استعمال یا اسے بروئے کار لانے کی دھمکی نہ دینا، ریاستوں کی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت اور مخصوص تنازعات کا پرامن حل شامل ہے۔
منیر اکرم نے روس یوکرائن جنگ کو سفارت کاری کی ناکامی کا مظہر بھی قرار دیا اور کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان امید کا اظہار کر چکے ہیں کہ سفارت کاری سے فوجی تنازعے سے بچا جا سکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو امید ہے کہ روس اور یوکرین کے نمائندوں کے درمیان شروع ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں لڑائی کو ختم کرنے اور صورتحال کو معمول پر لانے میں کامیابی حاصل ہو گی کیونکہ سفارتی حل ناگزیر ہے۔ اس سے قبل پاکستان میں قائم غیر ملکی مشنز میں سے 19 نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کی شروعات سے قبل ہی ایک خط میں پاکستان پر اقوامِ متحدہ میں یوکرین کی حمایت کرنے پر زور ڈالا تھا۔مگر اسی روز اعلی ترین سرکاری حلقوں سے مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ پاکستان اس ووٹنگ کا حصہ نہیں بنے گا اور پاکستان اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے نہ مخالفت۔پاکستان کے اس فیصلے کو کئی حوالوں سے خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے کہ ماضی کے برعکس پاکستان کسی سیاسی دھڑے کا حصہ نہیں بن رہا بلکہ افہام و تفہیم سے معاملات سلجھانے کی تلقین کر رہا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے پاکستان کی طرف سے ایسا کرنا ایک حیران کن عمل ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے پاکستان نے خطے میں سیاسی دھڑوں کا ساتھ دیا جبکہ ان کا ساتھ دینے کا براہِ راست اثر پاکستان کی معیشت اور ملک میں امن امان کی صورتحال پر منفی صورت میں نظرآیا۔دو روز قبل سینیٹ کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا تھا کہ اس جنگ میں پاکستان کے براہِ راست مفادات نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان چاہتا ہے کہ اس خطے میں اپنا کردار ادا کرے جس میں پاکستان کے تعلقات روس، چین اور وسطی ایشیا سے بھی ہیں۔ اور تیسرا یہ کہ پاکستان اب کسی قسم کی کشیدگی کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ نہ کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے اور نہ کسی کی مخالفت کرنا چاہتا ہے۔مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ یوکرین اور روس کے درمیان تنازعہ یورپ کی سرد جنگ کا حصہ ہے جو یوکرین میں جاری ہے۔ اس طرح یہ کہنا درست ہوگا کہ اب ہماری خارجہ پالیسی صحیح سمت میں چل پڑی ہے۔
جہاں تک روس اور امریکہ کا یوکرین میں ایک دوسرے سے نبرد آزماہونے کا تعلق ہے تو امریکہ ہر طرح سے کوشش میں ہے کہ روس کو معاشی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جائے۔ شنید ہے کہ انگلستان کے اس طبقے پر روسی صدر کا کافی اثر و رسوخ ہے۔ یہ بھی شنید ہے کہ روسی صدر کی لندن میں کافی پراپرٹی بھی ہے اور اس لئے برطانیہ کے انسانی حقوق کے ادارے برطانوی حکومت پر یہ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ان امراء کے انگلستان میں مالی مفادات کو زک پہنچائے تاکہ روسی صدر یوکرائن پر قبضہ کر نے سے با ز رہے۔ لگ یہ رہا ہے کہ امریکہ اور کے اتحادی یوکرائن کے معاملے میں روس کو اقتصادی مار دینا چاہتے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ روس کو اقتصادی طور پر اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ جس طرح ماضی قریب میں امریکی صدر ریگن کے دور میں کیا گیا تھا اورجو بعد میں سویت یونین کی بربادی کا باعث بنا۔ لیبر پارٹی بھی برطانیہ کی حکومت پر بھرپور پریشر ڈال رہی ہے کہ وہ یوکرائن کے معاملے میں روس کے ساتھ اسی قسم کا سخت رویہ اختیار کرے کہ جو دیگر کئی یورپی ممالک نے اختیار کیاہوا ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ روس کو اس کا اندازہ پہلے سے ہوگا کہ اس کے خلاف کس قسم کی پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں۔ تاہم پیوٹن نے معاشی نقصانات کو قبول کرتے ہوئے روس کیلئے امریکہ اور نیٹو کے مستقل خطرے کو یوکرین میں پنپنے نہیں دیا۔ کیونکہ روس جانتا ہے کہ اگر وہ یوکرین پر حملہ نہ کرتا تو کچھ ہی عرصے میں وہاں پر امریکی میزائل نصب ہوتے جسا کا نشانہ پورا روس ہوتا۔