ماحولیاتی درجہئ حرارت میں اضافہ (گلوبل وارمنگ) کے منفی اثرات انتہائی تیزی سے ظہورپذیر ہو رہے ہیں اور بالآخر دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اُن سبھی پہلوؤں پر غور کرنے پر مجبور ہوئی ہے‘ جو اِس سے قبل صرف ماحولیات کے ماہرین کرتے تھے۔ ستائیس فروری کو قریب دوسو ممالک اور خطوں نے اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق انتہائی اہم رپورٹ کے مندرجات کی منظوری دی۔ یہ غیرمعمولی اور اہم پیشرفت ہے کیونکہ مذکورہ رپورٹ کو تقریباً پندرہ دن جاری رہے بحث و مباحثے اور متعلقہ امور کے حوالے سے تبادلہئ خیال پر مبنی بات چیت کے بعد منظوری دی گئی۔ ماحول کی تباہی پر عالمی غور و فکر ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جبکہ روس اور یوکرین جنگ ’متوازی بحران‘ کے باوجود دنیا کی توجہ کرہئ ارض کی بقا اور اِس پر رواں زندگی سے ہے۔
مذکورہ رپورٹ کا سب سے اہم حصہ ’پالیسی سازوں کیلئے دیا گیا خلاصہ (سمری)‘ ہے جس کا بین الحکومتی پینل آن کلائمیٹ چینج نے تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ مذکورہ چالیس صفحات پر مشتمل برس ہا برس کی سائنسی تحقیق کا خلاصہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات پر روشنی ڈالتا ہے جس کے نتیجے میں کرہئئ ارض پر رہنے والے کئی جانداروں کے معدوم ہونے کے خطرات پیدا ہوئے ہیں اور ایسے کئی جاندار ہیں جو معدوم ہو چکے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ماحولیاتی نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور اِس موقع پر اگر ”تحفظ ِماحول“ کی کوششوں کو خاطرخواہ اہمیت نہ دی گئی تو اِس سے ناقابل تلافی انسانی جانی و مالی نقصانات بھی ہوں گے۔ ماحولیاتی انحطاط کا نتیجہ انتہائی خراب موسموں کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ بارشوں کے موسم میں خشک سالی ہوتی ہے اور خشک موسم میں تناسب سے زیادہ بارشیں ہونے سے زرعی شعبہ متاثر ہوتا ہے جو کرہ ارض پر انسان کی بقا کی مرکزی ضرورت ہے۔
یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے حالات میں انواع و اقسام کی نئی بیماریوں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد تازہ پانی کے تیزی سے کم ہونے والے وسائل بشمول جھیلیں اور تالاب خشک ہو رہے ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پانی کی کچھ ممالک میں پانی کی وافر دستیابی تو کچھ میں غیرمعمولی کمی ہو رہی ہے۔ کم پانی کی فراہمی اور مٹی میں آلودگی فصلوں کی پیداوار کو بُری طرح متاثر کرتے ہیں جو اب دنیا کے بہت سے حصوں میں خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں معیار اور مقدار میں بہت کم ہے۔ یہ کمی براعظموں میں ’گلوبل ہیٹنگ‘ کا براہئ راست نتیجہ ہے۔ اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کرنے کیلئے ایسے سیلاب آتے ہیں‘ جن کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی اور یہ طغیانی فصلوں اور مٹی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں متاثرہ علاقوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے۔ دوسری انتہا پر جنگل کی آگ ہے جو ہزاروں مربع کلومیٹر اراضی کو کھا جاتی ہے اور کھڑی فصل و جنگلات بلا تفریق جل جاتے ہیں۔
درجہئ حرارت میں اضافے کے ساتھ بارشیں‘ سیلاب‘ گرمی کی لہر اور جنگل کی آگ کے یہ جھرنے گزشتہ دو دہائیوں سے ہر سال تباہی کا باعث بن رہے ہیں لیکن پھر بھی ایک طبقہ ’مضبوط لابی‘ کی صورت موجود ہے جو ماحولیاتی ردوبدل اور اِس کے منفی اثرات کو گردوپیش میں دیکھنے اور اِس کے تجربے سے گزرنے کے باوجود حقائق کا انکار کر رہا ہے جو قطعی دانشمندی نہیں۔ پاکستان کیلئے ماحولیاتی تحفظ کا قومی لائحہ عمل سیاسی وابستگیوں اور سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں عالمی سطح پر جن شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے ’دستاویز (رپورٹ)‘ کی صورت جن حقائق کا ذکر کیا گیا ہے وہ اِس مسئلے کو سمجھنے اور اِسے حل کرنے کیلئے کافی ہے اور مذکورہ عالمی رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بعد اِس حوالے سے شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جانا چاہئے کہ غذائی عدم تحفظ کی صورت انسانی بقا خطرے میں ہے۔ مذکورہ عالمی رپورٹ کی منظوری کے بعد دنیا نے فضائی آلودگی کم کرنے کا عہد کیا ہے۔ دنیا نے اتفاق کیا ہے کہ گاڑیوں‘ صنعتوں اور دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والے کثیف دھواں جس میں کاربن کے ذرات (آلودگی) زیادہ ہوتی ہے اِسے کم کیا جائے گا۔ متبادل ماحول دوست توانائی کے ذرائع اختیار و استعمال کئے جائیں گے۔
پاکستان میں حکومتی دستاویزات کی حد تک ماحولیاتی آلودگی سنجیدہ مسئلہ ہے لیکن اِس سے نمٹنے کے لئے عملی طور پر سرکاری ادارے خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ جیسا کہ ہم خراب انجن والی گاڑیوں‘ اینٹوں کے بھٹوں اور دیگر صنعتوں سے اُگلتے ہوئے دھویں کے سیاہ بادل دیکھتے ہیں لیکن اِنہیں ختم کرنے کی کوششیں دیکھنے میں نہیں آتیں۔ سیلاب‘ مٹی اور پانی کی آلودگی‘ گرمی کی لہر اور سموگ پاکستان میں بار بار پیدا ہونے والے مسائل ہیں جن کے لئے صوبوں اور وفاق کو مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ایک دہائی یا اس کے بعد سے‘ پاکستان کے بیشتر شہروں میں رہنے والوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر ابھی سے حسب آبادی و مستقبل کی ضروریات پانی کی فراہمی اور اِس کے تحفظ سے متعلق مؤثر انتظام و حکمت عملی وضع نہ کی گئی تو پھر اِس محاورے جیسی کیفیت ہو گی کہ اب پچھتائے کیا ہوت‘ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔