میں کہتا ہو ں کہ ان نالوں کا گندا پانی کہیں یہاں کے رہائش کنندگان کے گھروں کی دہلیز کے اندر داخل نہ ہو جائے۔کیونکہ چالیس روز سے زیادہ ہو چکے ہیں کہ پشاور کی نہروں کا پانی سُوکھ چکا ہے۔اس کا رخ کہیں اور موڑ دیا گیا ہے۔پھر رکی ہوئی نہروں کا پانی چھوٹے چھوٹے نالوں کی راہ سے ہوکر سڑکوں پر آن موجودہوا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب سڑکوں پر ٹریفک کے ساتھ ساتھ یہ پانی بھی جا رہاہوتا۔جس کے نتیجے میں میلوں لمبے ایک کوڑے کے ڈھیر کی شکل بن گئی ہے۔جہاں نہر میں پبلک کے گھروں کے فلش کا پانی آ کر گرتا تھا۔وہاں اب یہ خشک ہو کر ایک طویل عفونت اور سنڈاس سے بھرے کوڑے دان کا منظر پیش کر رہی ہے۔
شاید بھل صفائی مہم جاری ہے۔کہیں کوئی بڑا شاول آتا ہے اور کہیں کسی ایک جگہ سے نہر کا گند نکال کر ٹرک میں لاد کر جو چلاجاتا ہے تو ہفتوں لگ جاتے ہیں کہ آنکھیں اس شاول کو دوبارہ یہاں کہاں کسی اور مقام پر ہی سہی دیکھ توپائیں۔مگر ایسا نہیں ہوتا۔اس حد تک نہر سوکھے کا شکار ہو چکی ہے کہ چونکہ اب بہار کا موسم ہے۔اس لئے بارش بھی گاہے ہو جاتی ہے۔اگر بارش نہ ہو تو خشک نہر کے اندر کا گندا پانی ننھی کونپلوں کی آبیاری کرتا ہے اور نہر کے اندر اب سرسبزی کامنظر نظر آتا ہے۔کہیں کونپلیں پھوٹ نکلی ہیں تو کہیں ننھا سبزہ نہروں کے خشک کناروں پر اگ آیا ہے۔غالب کا شعر ہے کہ ”سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی۔بن گیا روئے آپ پر کائی“۔ پھر غالب ہی کا شعر یہ بھی ہے کہ ”پاتے نہیں جب راہ توچڑھ جاتے ہیں نالے۔رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور“۔
جب نہروں کے پانی کو راستہ نہیں ملے گا تو یہ پگڈنڈیاں بنا کر چھوٹے نالوں کی صورت میں نہر کے آس پاس سے گذرے گا۔ راہ گذرنے والوں کے کپڑے الگ سے گندے ہو رہے ہیں۔ پھراس آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں ٹاپ ٹین کے اس شہر گل عذاراں میں فضا اور زیادہ زہریلی اور ناخوشگوار ہو رہی ہے۔صحت کا نقصان جو پہلے ہی کئی حیلے بہانوں سے ہو رہاہے اب کہ اس میں نہری پانی کی بندش سے اور اضافہ ہو چکا ہے۔ مہینہ سے زیادہ ہوا ایک آدھ بار کوئی ٹرک دیکھا ہو۔ یہا ں یہی تو ہوتا ہے کہ کسی کام کو شروع تو کر دیتے ہیں۔مگر اس کو ایک اچھے انجام تک پہنچا نہیں پاتے۔راستے میں ادھورا چھوڑ کر جو ں غائب ہوتے ہیں۔
سوئی گیس والے آکر بھلی چنگی گلی اور کوچے کو مشینوں سے کاٹ کر اس میں پلاسٹک اورربڑ کے پائپ بچھا کر گلی کے حسن کو برباد کر کے نودو گیارہ ہو چکے ہیں۔ان کا یہ رفو چکر ہونا کسی پلاننگ کے بغیر ہے۔ایک سڑک کو تو انھوں نے مجھے اچھی طرح یاد ہے چار سال پہلے چھیلا تھا۔ کہاتھا کہ ا س علاقے میں گیس کی سپلائی کم ہے۔سو اگر نئے پائپ بچھا دیئے جائیں توگیس کی فراہمی میں مزید روانی آ جائے گی۔ روانی تو خیر خاک بھی نہ آئی الٹا جو گیس تھی وہ بھی چار سال سے آنکھ مچولی کھیلنے میں مصروف ہے۔ان نہروں کا تو ذکر کیا اب وہاں اس کے اندر کتے اتر کر اپنا رزق تلاش کرتے ہیں۔نہریں پایاب ہو چکی ہیں۔مگر کوئی ان میں کیوں اترے۔پایاب ہیں تو کیا۔ کس کو پڑی ہے کہ اپنے پاؤں گندے کرے اور ان نہروں میں اترے۔
ہاں بچے جو کرکٹ کھیلتے ہیں ان کابال چوکا چھکا لگاتے وقت اگر ان میں گر جائے تو وہ معصوم بچے ان میں اپنی صحت اور صاف کپڑوں کی پروا نہ کرکے اتر جاتے ہیں۔پاؤں گندے کر کے گندا بال اٹھا لاتے ہیں اور کرکٹ کا میلہ سجاتے ہیں۔گرمی کا موسم راہ میں ہے۔پھر ان ہی نہروں کے پانی میں یہی بچے نہائیں گے۔ ہاں ان نہرو ں میں جہاں عوام الناس کے گھروں کا نکاسی کاپانی آکر گرتا ہے۔