سیاست کے یقینی‘ غیریقینی پہلو

سیاسی گہماگہمیاں جس عروج کی جانب بڑھ رہی ہیں‘حزب ِاختلاف پورے یقین اور پورے زور کے ساتھ ”تحریک عدم اعتماد‘‘پیش کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور یہ کوشش بھی زور پکڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق قبل از وقت عام انتخابات کے معاملے پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پیپلز پارٹی کے درمیان سردمہری (ڈیڈ لاک) گرمجوشی میں تبدیل ہو گئی ہے اور قبل از وقت عام انتخابات پر حزب اختلاف کی سبھی جماعتیں متفق ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا حزب اختلاف کے ہاتھ ایسی عددی اکثریت آ چکی ہے جس کے ذریعے وہ تحریک انصاف کے خلاف واقعی کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن اگر کامیاب ہو بھی گئے تو آئندہ کا لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے قبل از وقت عام انتخابات کی بات کی جا رہی ہے! یہ بات بھی واضح نہیں کہ حزب اختلاف کا ہدف سپیکر ہیں یا وہ صرف وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اِس ماحول میں پہلے سے غیر مستحکم معیشت و معاشرت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ بہت عرصے سے یہی سیاسی صورتحال ہے جبکہ ضرورت ایک ایسے
 استحکام اور حکومت کی ہے‘ جس پر لوگوں کا اعتماد ہو۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں حکمراں تحریک انصاف کو اُن محرکات و اسباب کا جائزہ لینا چاہئے جس کی وجہ سے بات اِس حد تک پہنچی کہ مختلف النظریات سیاسی جماعتیں بھی ایک مطالبے پر جمع ہو رہی ہیں۔ اِس پوری صورتحال میں حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ (قائد اعظم) کی حمایت یا مخالفت جاری کھیل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ مسلم لیگ (قائداعظم) کا ارادہ کیا ہے‘ اس بارے میں کوئی بھی بات حتمی نہیں کہی جا سکتی۔ بہرحال حکومت اور حزب اختلاف میں جاری ”سیاسی کشا کش“ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف رہنماؤں کے بیانات کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نئے انتخابات وقت سے پہلے قریب آچکے ہیں اور سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ حکومت موجودہ صورت ِحال کے پیش نظر عوامی اضطراب میں کمی لانے کی غرض سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فراخدلانہ اعلان کیا ہے اور بجلی کے نرخ بھی کم کرنے کی خوشخبری سنائی لیکن وزیراعظم کے مذکورہ اعلان کے تھوڑی ہی دیر کے بعد خودمختار ادارے نیپرا نے بجلی کے نرخ بڑھانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گویا بجلی کے نرخ کم کرنے کا جو فائدہ عوام کو دیا جانا تھا‘ وہ دوسرے ہی لمحے واپس لے لیا گیا۔ اسی طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تسلسل کے ساتھ اضافے کے بعد محض دس روپے فی لیٹر کمی کے اعلان سے بھی عوام کو خاطرخواہ ریلیف نہیں مل سکا۔ حکومت نے عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں بہت سے دیگر پروگرام اور منصوبے بھی شروع کر رکھے ہیں جن میں احساس ہیلتھ کارڈ کا اجراء‘ پنتالیس لاکھ خاندانوں کو اپنے کاروبار شروع کرنے اور گھروں کی تعمیر کیلئے ایک ہزار ارب روپے کے بلاسود قرضہ جات‘ اپنا روزگار سکیم کے تحت نوجوانوں کو تین سے پانچ لاکھ روپے تک کے بلاسود قرض دینے جیسے عوامی فلاحی پروگرام شامل ہیں۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے
 کہ حکومت جتنا ٹیکس اکٹھا کرے گی‘ اتنا ہی عوام پر خرچ کیا جائے گا۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو ملک کی معاشی حالت انتہائی دگرگوں تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر بہت کم تھے‘ بجلی‘ گیس کی لوڈشیڈنگ عذابِ جان بن چکی تھی۔ لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور تھے۔ تنخواہیں ادا کرنے کے لئے بھی قومی خزانے میں پیسہ نہیں تھا چنانچہ حکومت کو امور مملکت چلانے اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے دوست ممالک چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے امداد لینا پڑی اور قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے آئی ایم ایف کی طرف جانا پڑا۔ ابھی تک قرضوں پر ہی قومی معیشت کا انحصار ہے۔ عوام الناس جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں سے نالاں تھے‘ انہوں نے تحریک سے غیرمعمولی توقعات وابستہ کرلیں۔انہیں مذکورہ دونوں جماعتوں کے مقابلے میں تحریک نجات دہندہ کی صورت میں دکھائی دی لیکن امیدیں مایوسیوں میں بدل گئیں۔ حرف آخر یہ ہے کہ حکومت کے خلاف کسی بھی نوعیت کی احتجاجی تحریک شروع کرنا یا تحریک عدم اعتماد پیش کرنا اپوزیشن کا جمہوری اور آئینی حق ہے مگر اس تمام کوشش میں آئینی اور قانونی حدود قیود کو بھی ضرور پیش نظر رکھا جائے۔