ویانا مذاکرات کی تازہ صورتحال

ویانا میں ایران کے جوہری پروگرام پر یورپی یونین کی نگرانی میں جاری مذاکرات فیصلہ کن اور نازک موڑ پر پہنچ چکے ہیں اور اگلے چند دنوں یا ہفتوں میں معاہدہ سامنے آسکتا ہے۔عالمی خبر رساں ایجنسی رائٹرز اور برطانوی اخبار گارڈین کی رپورٹوں کے مطابق مغربی طاقتوں، روس، چین اور ایران کے درمیان معاہدے کے متن پر اتفاق ہو چکا ہے۔ ادھر ایران کے مطابق اس نے مذاکرات میں اپنی سرخ لکیریں، منطق اور وجوہات بیان کردی ہیں مگر امریکہ اور مغربی شرکاء تین اہم مسائل پر سیاسی فیصلے میں تاخیر کر رہے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ نے پچھلے دنوں کہا کہ اگر مغرب نے ان حساس حالات میں حقیقت پسندی سے کام نہیں لیا تو یقیناً وہ مذاکرات کی ممکنہ ناکامی کا ذمہ دار ہوگا۔ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بقول مذاکراتی ٹیمیں 98 فیصد معاملات پر متفق چکی ہیں اوریہ کہ ایران اور پانچ عالمی طاقتوں کے درمیان باقی ماندہ مسائل بھی قابل حل ہیں اور اگر امریکہ اورعالمی طاقتوں کا ارادہ ہو تو ہم ایک اچھے اور فوری معاہدے تک پہنچنے کے لئے تیار ہیں۔ ادھر امریکی وزارت خارجہ نے کہا ہے آئندہ چند دنوں میں پتہ چل جائے گا کہ کیا 2015 ء کا مشترکہ جامع منصوبہ عمل یا ایران جوہری معاہدہ بحال ہوسکے گا یا نہیں۔ایران کے بقول اس نے جن مسائل کو سرخ لکیریں قرار دیا ہے وہ بدستور موجود ہیں اور اس کی تین اہم درخواستوں کا ابھی تک جواب نہیں دیا گیا ہے۔ تین معاملات یہ ہیں کہ پابندیاں کس حد تک ہٹائی جائیں گی، یہ ضمانتیں فراہم کی جائیں کہ امریکہ دوبارہ معاہدہ سے نہیں نکلے گا اور ایران کے پرانے مگر غیر اعلانیہ مقامات میں موجود یورینیم نشانات پر بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی تحقیقات سے کیسے نمٹیں۔ اب بات اب یا کبھی نہیں پر آگئی ہے۔ ایران امریکہ سے یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتا ہے کہ مستقبل کی کوئی امریکی انتظامیہ پھر معاہدے کو صدر ٹرمپ کی طرح اچانک ختم نہیں کرے گی، تہران اپنے وعدوں پر عمل شروع کرنے سے پہلے پابندیوں کے خاتمے کی خود تصدیق کرے گا اور آئی اے ای اے کو ایران کی جوہری سرگرمیوں پر تحقیقات بند کرنی ہوں گی۔ عالمی جوہری توانائی ادارے نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران کے 60 فیصد افزودہ یورینیم کے ذخائر تقریباً دوگنا ہو چکے ہیں جو گزشتہ تین ماہ میں 15.5 کلو گرام سے بڑھ کر 33.2 کلوگرام ہو گئے ہیں۔ ادارے کے سربراہ رافائل گروسی ایران کے جوہری پروگرام اور دیگر حفاظتی امور پر بعض اختلافات کو حل کرنے کیلئے کل سے ایران کا دورہ کریں گے۔ امریکی وزیر خارجہ نے پچھلے دنوں دھمکی دی تھی کہ اگر ایران سختی کرے گا تو امریکہ مذاکرات سے نکل جائے گا۔ اس پر ایران نے کہا کہ امریکہ پہلے بھی ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلا ہے اور اس بنا پر ایران یہ اطمینان چاہتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ویانا مذاکرات میں ایران، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس براہ راست اور امریکہ بالواسطہ شامل ہیں۔ امریکہ اور ایران ابھی تک دو طرفہ بالمشافہ مذاکرات کرنے سے گریزاں ہیں۔ گزشتہ برس اپریل سے شروع ہونے والے ان مذاکرات کے اب تک آٹھ دور ہوچکے ہیں۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد اس کیساتھ امریکہ اور یورپ کے سخت اختلافات چل رہے ہیں لیکن ویانا مذاکرات میں یہ سب شامل ہیں اور یوکرین مسئلے کی وجہ سے مذاکرات میں کوئی تعطل نہیں آیا۔ فرانس کے وزیر خارجہ نے پچھلے دنوں کہا ایران کے پاس وقت کم ہے مگر وہ 2015 ء کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی جوہری سرگرمیاں تیز کر رہا ہے۔ اگر معاہدہ نہ ہوا تو ایک بڑا بحران جنم لے گا‘ مذاکرات ناکام ہوگئے تو ایران اور امریکہ کے درمیان علاقائی کشمکش، اسرائیل ایران جنگ اور ایران پر مزید سخت پابندیاں نافذ ہونگی اسرائیل نے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ایران سے سختی سے نمٹنے کا اعلان کیا ہے‘ایران نے بھی حملہ کی صورت میں تباہ کن جواب پر متنبہ کیا ہے۔ معاہدے کے تحت ایران اپنے بیشتر جوہری پروگرام کو ختم کرنے، بین الاقوامی معائنے کے لئے اپنی سہولیات کھولنے، اپنے سویلین جوہری افزودگی پروگرام میں چلنے والے سینٹری فیوجز کی تعداد و اقسام اور افزودہ یورینیم کا ذخیرہ کم کرنے اور اپنے جوہری ایندھن کا 97 فیصد ملک سے باہر بھیجنے پر آمادہ ہوا۔ اس نے ایڈیشنل پروٹوکول پر عمل درآمد کرنے سے بھی اتفاق کیا جس کے تحت آئی اے ای اے کو مختصر نوٹس پر ایران میں کہیں بھی معائنہ کرنے کی اجازت دی گئی‘اسکے بدلے میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ایران سے پابندیاں ختم کردیں اور اس کے منجمد اثاثے بحال کردئیے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے 2018 ء میں ایٹمی معاہدے سے امریکہ کو نکال دیا اور ایران پر پابندیاں عائد کردیں۔ اس کے بعد ایران نے 2019 ء میں کم افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو مقررہ حد سے بڑھانا شروع کردیا۔ ایران نے آئی اے ای اے کے اچانک دورے اور معائنے بھی محدود کردیئے۔