سڑکوں پر وہ تیز رفتاری ہے کہ دل دہل جاتا ہے۔شہر کی مصروف ترین شاہراہیں ہیں اوران کو روندنے والے بے پروا ہ ہیں۔ رکشے ہیں یا موٹر سائیکل سوار ہیں۔جو ذمہ داری سے چلاتے ہیں وہ میری اس تحریر میں شامل نہیں ہیں۔مگر جو لاپروائی کرتے ہیں۔ جیسے چنگ چی نہ ہو بلکہ جہاز اڑانے کی مشق کر رہے ہوں۔اب تو بچوں نے بھی چنگ چی چلانا شروع کر دیا ہے۔ بائیک تو چلاتے تھے۔ گھر سے چھپ چھپا کر موٹر بائیک کو باہر لے آتے ہیں۔روز ان کی وجہ سے سڑک پر ایک اودھم مچا ہوتا ہے۔ پہلے ہی موٹر سائیکل کیاکم تھے جو اب یہ بچہ لوگ جن کے پاؤں بھی زمین پرنہیں لگتے دو پہیے کے اس راکٹ پر بیٹھ کر اپنے فن کامظاہرہ کرتے ہیں۔ مگر بچے جو چنگ چی چلاتے ہیں وہ قابلِ اعتراض ہے۔ظاہر ہے کہ ان کے ہاں بھی کوئی نہ کوئی مجبوری ہوگی۔ مگر دھیان سے چلاناانھیں کون سکھلائے۔پھران حالات میں کہ روٹی مہنگی اور جنرل سٹور پر ہر چیز گراں قیمت میں دستیاب ہو۔ ایسے میں کوئی کیا کرے۔گھر میں کوئی کمانے والانہ ہو۔گھر کابڑا بیماری کے بستر میں لمبی بیماری آزاری میں پھنسا ہو۔ ایسے میں ماں توکہے گی کہ جابیٹاکچھ کما کر لا تاکہ گھر کا کچن تو چل سکے۔ چھوٹے بہن بھائیوں کے منہ میں کوئی دانہ تو پڑے۔چونکہ بیروزگاری عام ہے۔لہٰذا سب سے آسان کام رکشہ اورچنگ چی چلاناہے۔پھر اس کیلئے کوئی سرمایہ بھی نہیں لگانا پڑتا۔چونکہ سب سے آسان کام رکشہ یا چنگ چی چلانا ہے اس لئے آپ کو شہر کی سڑکوں پر یہ اشیاء وافر مقدار میں ملیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اور کوئی کاروبار ہو اس کے لئے اگر دکان نکالیں تو اول اس کو چلانے کے لئے بہت زور لگاناپڑے گا۔ مگر رکشہ اور چنگ چی چلانے کو زور زبردستی کی ضرورت نہیں۔یہ خود بخود دوڑتے ہیں۔رکشہ کو سٹور سے نکال کر سڑک پر لائیں تو فوراً سواری آن موجود ہوتی ہے۔سو اس وجہ سے رکشے بھی زیادہ ہیں اور چنگ بھی بہتات سے چل رہے ہیں۔ جانے یہ بیروزگاری ہمیں کہا ں لے جائے گی۔روپے کی قدر میں گراوٹ ہمیں کہاں پہنچائے گی۔بعض بچوں کو سکول سے اٹھا دیا گیا ہے۔اب گھرمیں کمانے والے کی بیماری کے کارن یا پھراس کے اچانک فوت ہوجانے کے سبب باورچی خانے کاانتظام چلانا از حد گراں ہو جاتا ہے۔اس لئے بچے کو باہر نکال دیتے ہیں کہ کچھ کما کر لاؤ۔ بے روزگاربچے یا غریب انسان کو مشورہ دینے والے رکشہ چلانے کی طرف راغب کرتے ہیں۔اسی ہزارکی تعداد میں چلنے والے رکشے ڈرائیوروں کے خود کے تو نہیں ہوتے۔ان میں سے زیادہ تر دیہاڑی کے حساب سے کسی اور مالک کا رکشہ چلاتے ہیں۔ خود کماتے کھاتے ہیں اور مالک کو بھی دھندا دیتے ہیں۔کبھی تو اپنے لئے بچت نکال بھی نہیں پاتے مگرمالک کو لازمی دینا ہوتے ہیں۔جن کے اپنے رکشے ہیں او روہ بھی پرمٹ والے ہیں وہ مزے میں ہیں۔ اپنی اچھی خاصی کمائی گھرمیں لے کر آتے ہیں۔شہر بھر میں گھومتے ہیں۔تین ٹائم میں کسی ایک وقت چلالیں توان کا کام چلتا ہے۔صبح سویرے سے دوپہر تک یا دوپہر کھانے کے بعد شام تک یا پھر رات سے صبح نمازِ فجر تک رکشہ چلاتے ہیں۔ان تینوں میں سے جو وقت ان کے لئے موزوں ہو ایک ٹائم کے لئے سڑک پرآتے ہیں۔چنگ چی بھی تو ان بچوں کی اپنی ذاتی نہیں ہوتی۔کرایہ پراٹھالیتے ہیں۔ڈرائیور لوگ گھر میں بیٹھے ہوئے مالکان کی گاڑیاں نکال کر سڑک پر آجاتے ہیں۔مگر مجھے تو ان کی تیز رفتاری کاذکر کرناہے۔مجھے اس سے سروکار نہیں کتنے رکشے او رکتنی چنگ چی اور سوزوکیاں ہیں۔بلکہ اب توپٹرول کی گرانی کے ہاتھوں تنگ آ کربعض حضرات نے تانگہ میں گھوڑا جوت کرسڑک پر سواریاں بٹھا کر سستی تانگہ سہولت میسر کردی ہے۔