ایک عرصے سے وسطی ایشیا خصوصی طور پر افغانستان میں کئی ممالک مختلف ادوارمیں میں اس علاقے کے کنٹرول کیلئے نبرآزما رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔تاریخ کی کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی تو یہ لڑائی زار روس اور سلطنت برطانیہ کے درمیان ہوتی رہی تو کبھی اس میں سوویت یونین اور امریکہ آپس میں جنگ کرتے رہے چونک وسطی ایشیا بشمول افغانستان قدرتی معدنی وسائل سے مالا مال ہے اس علاقے پر کئی سپر پاورز کی بری نظر ہے اور وہ ہر قیمت پر اسے اپنی سیاسی دسترس میں لانا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان نے ایک عرصہ دراز کے بعد چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات خوشگوار بنائے ہیں اور امریکہ سے دوری اختیار کی ہے اس لئے امریکی سی آئی اے اے کی اب یہ کوشش ہے کہ فارن پالیسی کی اس تبدیلی پر پاکستان کو سبق سکھایا جائے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان کے اندر تخریبی کاروائیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے ہے تاکہ وطن عزیز کا امن عامہ خراب ہو اور چین اورروس کے اشتراک عمل سے سے پاکستان کے اندر جو ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں ان پر کام ٹھپ ہو کر رہ جائے اس حقیقت کا ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو ادراک ہونا چاہئے ان سب کے نزدیک ملک کی سلامتی مقدم ہونی چاہئے۔
حال ہی میں پاکستان کا اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں غیر جانبدار رہنا بھی امریکہ سے ہضم نہیں ہورہا اور اس نے کھل کر اس پر اپنی خفگی کا اظہار بھی کردیا ہے۔امریکہ نے پاکستان کو آگاہ کیا ہے کہ یوکرین میں جنگ کے علاقائی اور عالمی دونوں طرح کے نتائج سامنے آسکتے ہیں تاہم اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان نہ صرف اپنے اقدامات کے نتائج سے باخبر ہے بلکہ یوکرین میں امن کی بحالی کیلئے تمام تر کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر پاکستان کے موقف کو روس کی حمایت کے اظہار کے طور پر بیان کرنا ایک برعکس تشریح ہوگی۔ان کا یہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ ہم جنگ بندی اور مذاکرات کی وکالت کر رہے ہیں، اگر ہم یوکرین کی قرارداد میں شامل ہوتے تو ہمارے پاس دونوں فریقین کے ساتھ سفارت کاری کیلئے کوئی سیاسی جگہ نہیں ہوتی۔یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ یہ صرف پاکستان ہی نہیں تھا جس نے اس قرارداد کے حوالے سے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا بلکہ مذکورہ قرارداد میں جنوبی ایشیائی ممالک میں سے صرف نیپال نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا نے اس سے دور رہنے کا فیصلہ کیا۔ یعنی کل ملا کر یہ 35ممالک بنتے ہیں تاہم امریکہ کا صرف پاکستان کے حوالے سے رویہ مخاصمانہ ہے۔
امریکہ کے نیم سرکاری نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے غیر جانبدار رہنے کی وجوہات بھی واضح طور پر بتاد ی ہیں اور کہا ہے کہ 28یورپی اور 2 شمالی امریکی ممالک کے نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کی اپنی سرحدوں تک توسیع پر روس کو تشویش ہے اور ان خدشات کا ذکر قرارداد میں نہیں کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک طرح سے یکطرفہ قرار داد تھی، ہم ایک متوازن نقطہ نظر چاہتے ہیں، اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس تنازعے کو گفتگو سے حل کیا جانا چاہئے۔دیکھا جائے تو عرصہ دراز کے بعد پاکستان نے بہت متوازن پالیسی اختیار کی ہے، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقبل مندوب نے ایک اور اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ شہریوں کی ہلاکتیں چاہے یوکرین میں ہوں یا کشمیر اور افغانستان میں، ان کی ہمیشہ مذمت کی جانی چاہئے۔اب ایک اور اہم واقعے کی طرف آتے ہیں جہاں پیرس میں 4 روز تک جاری رہنے والے اجلاس کے اختتام پر ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی کارکردگی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔ اجلاس کے آخری روز منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق پاکستان کے 5 ایکشن پلانز کا جائزہ لیا گیا۔ایف اے ٹی ایف نے اعتراف کیا کہ پاکستان 28 میں سے 27 نکات پر عمل کر چکا‘اسکے باوجود پاکستان کو مزید 4 ماہ کیلئے گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے جون تک اہداف حاصل کرنے کا وقت دے دیا۔
اس حوالے سے گزشتہ ماہ وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے 28 شرائط تھیں، جن میں سے پاکستان نے 27 شرائط پوری کردی ہیں‘ اور اٹھائیسویں نمبر کی شرط کے بھی کچھ نکات کو پورا کیا ہے، محض ایک شرط ہے وہ بھی ٹرانزیکشنل ہے، اس کے باوجود ہمیں جان بوجھ پر دبا ؤکا شکار اور انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اگر کوئی اور ملک اٹھائیس میں سے ستائیس شرائط پورا کرتا تو وہ کب کا گرے لسٹ سے نکل جاتا۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ سیاسی ہے اور امریکہ بھارت سمیت کچھ ممالک پاکستان کیساتھ اپنے اختلافات کو اس فورم پر بروئے کار لا رہے ہیں۔تاہم پاکستان کو غیر جانبدار پالیسی اپنانے کیلئے اگر اسی طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے دباؤ میں لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں اور اس دباؤمیں آنے کی بجائے پاکستان نے جس صحیح ٹریک کا انتخاب کیا ہے اس پر تیزی سے آگے بڑھنا چاہئے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ پاکستان سے کسی حال میں بھی خوش نہیں ہوا ایسے حالات میں کہ جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے مدد طلب کی جارہی تھی ساتھ ہی پاکستان پر پابندیاں بھی عائد کی گئی اس طرح امریکہ کی دوستی میں پاکستان کو نقصان ہی پہنچایا ہے اگر ہم ابتداء سے ہی ایسی غیر جانبدار پالیسی اختیار کرتے کہ جس پر اب عملدرآمد کیا جارہا ہے تو اس وقت جتنے معاشی مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے شاید ہی ہمیں اس سے دوچار ہونا پڑتا اب بھی بروقت فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان جنگ میں طرف داری کی بجائے امن کوششوں میں اپنا حصہ ڈالے گا۔