خون کا عطیہ

ہسپتال کی انتظامیہ پر مریضوں کی شفایابی ایک فرض تھا۔ ایمرجنسی کی صورتِ حا ل میں انھوں نے  اعلانات کروائے۔ یہ کہ زخمی مریضوں کے لئے خون کی اشد ضرورت ہے۔اگر خون دستیاب نہ ہوا تو ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ان اعلانات کی گونج ٹی وی سکرین پربھی سنائی دے رہی تھی۔میں وہاں کے بلڈ بینک پہنچا۔حالانکہ چند ہی روز قبل میں خود ایک تھیلی سیمیا کے جاں بلب مریض بچے کو خون دے چکا تھا۔وہاں کی صورتِ حال کا جائزہ لینا تھا۔ سوچا شاید کوئی اکا دکا بندے ہوں گے جو خون دینے کو آئے ہوں۔مگر وہاں تو خون دینے والوں کی لمبی قطار موجود تھی۔ جس میں ایک آدمی کی باری شاید ایک گھنٹے میں آنا تھی۔گویاسارا شہر خون عطیہ کرنے کے لئے امنڈ آیاتھا۔مجھے اس بات سے بہت تسلی ہوئی کہ پبلک نے اپنا فرض گردانا اور مریضوں کی جان بچانے کو گھروں سے نکل کرہسپتال کے بلڈ بینک کے باہر خون دینے کے لئے لائن میں کھڑے ہو گئے۔ کچھ ماہ قبل میری اہلیہ جس کے رکشے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔اس کو ایمرجنسی وارڈ میں ماتھے کے عین درمیان میں اوپر سے نیچے کی جانب آٹھ ٹانکے لگائے جا رہے تھے۔
 اس کی ساری قمیض لہو کی سرخی سے تر بہ تر تھی۔میڈیکل اٹینڈینٹ نے کہا اتنا خون بہہ جانے سے یہ تو بالکل خوفزدہ نہیں۔میں نے جواب دیا یہ خود بھی بلڈ ڈونر ہے۔اس لئے بلڈ دینے والا خون بہنے سے نہیں گھبراتا۔ اب کے بلڈ ڈونرز کی جو قطار میں نے دیکھی تو ایک طرح کا اطمینان ہوا کہ اعلان کے بعد کافی سے زیادہ لوگ جمع ہوگئے۔ اندازہ تھا خون کے اتنے بیگ جمع ہو جائیں گے کہ اس حادثے کے مریضوں کو خون چڑھا لینے کے بعد بہت سا خون بچ جائے گا۔ جو دوسرے مریضوں کے کام آئے گا۔خون کا عطیہ دینا چاہئے۔ مجھے یاد ہے کہ جب عراق نے کویت پر حملہ کیاتھا تو اس جنگ میں زخمی ہونے والوں کے لئے خون کے عطیات کی اشد ضرورت پیش آئی۔اس مقصد کے تحت پشاور قصہ خوانی میں بلڈ کیمپ لگایاگیا۔مجھے معلوم ہوا تو میں بھی دوڑ کر پہنچا اور وہاں خیمے میں ایک بیڈ پر لیٹ کر خون دے ڈالا‘ خون عطیہ کرنے والے کا جذبہ ہونا چاہئے‘ہمارے ہاں خون کی تنظیموں کو یہ پریشانی لاحق رہتی ہے کہ خون دینے والوں کو ڈھونڈنا پڑتا ہے اور ان سے درخواست کرکے انھیں سنٹر بلوا کر وہاں ان سے یہ خون کا عطیہ لیاجاتا ہے۔
اچھی بات یہ ہو کہ وہ خودانسانی ہمدردی کے تحت خون دینے کے لئے شوق سے آئیں۔ خون سے دینے سے کچھ بھی تو نہیں ہوتا۔ اگر زندگی میں کبھی خون نہیں دیااور آپ فخر سے کہہ رہے ہیں تو اس میں ناز کرنے کی کوئی بات نہیں۔کم از کم زندگی میں ایک بار تو بلڈ دیں۔ حالانکہ آپ سال میں تین مرتبہ یا چار بار یہ عطیہ دے سکتے ہیں۔ تو اب آپ خدا بچائے کیاحادثات کا انتظار کریں گے۔پھر اعلانات کی طرف کان لگائے رکھیں گے۔جن حضرات کو خون دیئے عرصہ ہو چکا وہ کہیں بھی خون کا عطیہ دے سکتے ہیں۔خون کوئی بھی دے سکتا ہے۔اگر آپ چھ ماہ بعد یاسال کے بعد دیں یا اگر ہچکچاہٹ ہو تو دوسال میں ایک مرتبہ دیں۔ اس سے آپ کی صحت پر ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ اس کانقصان کوئی نہیں ہاں فائدہ ضرور ہے۔
خون دینے کے بعد ایک گلاس جوس یا دودھ وغیرہ پی لینے سے آپ کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔خون اٹھارہ سال کے بعد ساٹھ سال تک دے سکتے ہیں۔حادثات توکہہ کر نہیں آتے۔مگر تھیلی سیمیا کے مریض جو ہسپتال میں اپنی رجسٹریشن کروا چکے ہوتے ہیں وہ تو بلڈ سنٹر کو فون کر کے آتے ہیں۔ ان کے لئے اتنا خون کہاں سے آئے گا۔ اگر ہم ان کو خون سپلائی نہ کریں تو وہ کہا ں جائیں۔ کیا وہ بچوں کے غریب والدین ایک ایک ہفتہ بعد ہزاروں روپے دے کر خون خریدیں گے۔کیونکہ بعض مریض بچوں کے جسم میں خون نہیں رہتا تو دو یا تین ماہ بعد بھی ان کو خون کی ایک بوتل چڑھائی جاتی ہے۔ بوتل کا مطلب روح افزا شربت کی بڑی بوتل مراد نہیں۔ یہ تو چھوٹا سا پیک ہوتا ہے۔جو پانچ سو سی سی ہوتا ہے۔جس میں ایک پاؤ دوا تو پہلے سے موجود ہوتی ہے جو خون کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے پلاسٹک کے پیک میں رکھی جاتی ہے۔کالجوں اوریونیورسٹیوں میں بلڈکیمپ لگانے چاہئیں۔ کیونکہ نوجوان بچے کی صحت گذری ہوئی عمر کے بندے سے زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا جوان خون بھی مریض کے لئے زیادہ شفا کا باعث ہو تا ہے۔تھیلی سیمیا کے مریض بچے کا جسم خون نہیں بناتا۔اس کو باہر سے خون دینا پڑتا ہے۔ورنہ خون نہ ملنے پر اس کی جان جا سکتی ہے۔