انتقام کی آ گ

اس وقت مجموعی طور پر دنیا انتشار کا شکار ہے اورہر سونفسا نفسی کا عالم  ہے۔ یورپ تیسری عالمگیر جنگ کے دہانے پہنچ چکا ہے اور نیوکلیئر اسلحہ کی موجودگی میں اب کی دفعہ جو جنگ ہو گی اس کا دورانیہ بھی کم ہو گا اور وہ تباہ کن بھی ہوگی۔ روس کا صدرپیوٹن مضبوط اعصاب کا سخت گیر قسم کا انسان ہے اور امریکہ نے 1980 کی دہائی میں جس سازش سے وسطی ایشیا کو توڑا تھا وہ  اس کی وجہ سے اسی قسم کی انتقام کی آگ میں جل رہا ہے۔امریکہ تو سمجھ رہا تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب روس دوبارہ اٹھنے کے قابل نہیں ہوگا تاہم پیوٹن نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ وہ روس کو دوبارہ وہ حیثیت دلا کررہے گا جس سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے مل کر اسے محروم کیا تھا اورلگ یہ رہا کہ پیوٹن یہ آ گ بجھاے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گا۔ یوکرین میں جنگ چھیڑ کر اس نے امریکہ اور مغربی اتحادی نیٹو کی دم پر پاؤں رکھ لیا ہے۔اب ان کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ روس سے جنگ چھیڑ دیں یا پھر یوکرائن کو بھی ہاتھ سے نکلتا ہوا دیکھ لیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ او رنیٹو مخمصے میں ہیں۔ وہ روس کے ساتھ جنگ چھیڑنے کی غلطی نہیں کر سکتے۔
 دوسری طرف یوکرین کے صدر زیلنسکی امریکہ اور نیٹو کو باربار نو فلائی زون کیلئے درخواست کررہے ہیں جبکہ روسی صدر پیوٹن نے کھل کر کہا ہے کہ جس ملک نے بھی یوکراین کو نو فلائی زون بنانے کی کوشش کی اسے جنگ میں شریک سمجھا جائیگا۔نیٹو کے سربراہ نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں کھل کر کہا کہ نیٹو اس جنگ میں نہیں کودے گا اور نہ ہی نو فلائی زون قرار دینے کیلئے کوئی قدم اٹھائے گا۔کیونکہ اس سے براہ راست نیٹو ا ور روس آمنے سامنے ہوجائیں گے۔جس سے نیٹو گریز کر رہاہے ساتھ ہی نیٹو نے یہ بھی واضح کر دیا کہ وہ جنگ کو یوکرین کی حدود سے آگے نکلنے نہیں دیں گے۔یوکرین کی حالت ان ممالک کیلئے عبرت ہے جو امریکہ کے کہنے میں آکر جنگ میں کودتے ہیں۔ یوکرین کے ساتھ روس کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ وہ مغربی اتحاد نیٹو اور امریکہ کو اپنی سرزمین  روس کے خلاف استعمال نہ کرنے دیں۔دوسری طرف روس نے حالیہ تنازعے میں جو غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے اسے ہر طرح سے سراہا جانا چاہئے۔ پاکستان نے امریکہ کا ماضی میں جب بھی ساتھ دیا ہے نقصان ہی اٹھایا ہے۔ 
روس کے ساتھ قریبی تعلقات سے امریکہ اوراس کے مغربی اتحادی پاکستان سے ناراض تو ہوں گے تاہم اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان غیر جانبداری پر ہی گامزن ہے۔ گزشتہ روزوزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کاروسی فیڈریشن کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کیساتھ ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس میں دو طرفہ تعلقات، علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ روس کا حوالہ دیتے ہوئے دونوں وزرائے خارجہ نے دو طرفہ ایجنڈے اور افغانستان سمیت خطے کے اہم موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے 4 مارچ 2022 کو پشاور میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے روس کی طرف سے ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت پر زور دیا۔ دونوں وزرائے خارجہ نے افغانستان میں امن و استحکام کے مشترکہ اہداف کے لیے مل کر کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا وزیر خارجہ نے یوکرین کی تازہ ترین صورتحال پر پاکستان کی تشویش کا حوالہ دیتے ہوئے ہوئے اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں کے مطابق کشیدگی میں کمی لانے کی ضرورت پر زور دیا۔
وزیر خارجہ نے کثیر جہتی معاہدوں، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت تنازعہ کے سفارتی تصفیے کی ضرورت پر زور دیا وزیر خارجہ نے تنازعہ کے پر امن حل کیلئے، یوکرین، پولینڈ، رومانیہ اور ہنگری کے وزرائے خارجہ اور یورپی یونین کے اعلی نمائندے برائے خارجہ امور کے ساتھ ہونیوالے حالیہ ٹیلیفونک رابطوں سے آگاہ کیا۔شاہ محمود قریشی نے کہاکہ توقع ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات سفارتی حل تلاش کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔روسی وزیر خارجہ نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو صورت حال پر روس کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ یوکرین سے پاکستانی شہریوں کی محفوظ اور جلد واپسی، حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس ضمن میں روسی حکومت سے مدد اور سہولت فراہم کرنے کی درخواست کی۔روسی وزیر خارجہ نے پاکستانی شہریوں کے محفوظ انخلا کے حوالے سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔دونوں وزرائے خارجہ نے ابھرتی ہوئی صورتحال پر رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بہت مثبت تبدیلی آئی ہے جس کے دور رس مرتب ہوں گے۔