ماحول کو سنوارنا ہے

ماحول کو درست رکھنے کیلئے بہت قربانی دینا پڑتی ہے۔اگر گھر کا خیال رکھنا ہے تو گھر میں ایسے کام نہ ہوں جن کو بچے سیکھ لیں۔مثال کے طور پر اگر والد صاحب سگریٹ سے شوق فرماتے ہیں تو جان لیں کہ ان کے بچے خواہ جتنے چھوٹے ہیں ان کے ذہن میں آپ کی تصویر بن رہی ہے۔وہ بڑے ہو کر آپ سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔جانے آپ نے سگریٹ نوشی کہاں سے سیکھی۔مگر جو آپ کو ماحول نے دیا ہے وہ آپ ماحول کو لوٹا رہے ہیں۔”دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں۔جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹارہاہوں میں“۔سگریٹ کے دھوئیں سے دل بستگی کی یہ بات ایک اشارہ ہے۔سمجھ دار لوگ اشارے کوسمجھ جاتے ہیں۔ میری مراد صرف سگریٹ ہی نہیں ہر قسم کا نشہ ہے۔پھر ہر وہ کام ہے جو برا ہے۔جو گھروں میں ہو رہاہو۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچوں نے وہ برا کام نہیں دہرانا جو ہم کر رہے ہیں۔ہم سوچتے ہیں اگر انھوں نے ہمارے جیسی الٹی سیدھی حرکت کی توہم مار پیٹ اور زبردستی کے ذریعے ان کوروک لیں گے۔انھیں کسی قسم کا غلط کام کرنے نہیں دیں گے۔مگر یہ آپ کی خام خیالی ہے۔آپ نے اپنے صحن میں سگریٹ کا بیج تو بو دیا ہے۔مگراب خود آپ کے اختیار میں نہیں کہ اس پر قابو پا سکیں۔پھر ویسے بھی آج کل رجحان بدل رہا ہے۔کہتے ہیں انسان پہلے اپنی عادتیں بناتا ہے۔پھر عادتیں اسے بناناشروع کر دیتی ہیں۔اگر ہم اپنے بچوں کو ایک اچھا ماحول دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے لئے سب سے پہلا کام یہ کہ خود اپنے آپ کو سنوارنا ہوگا۔خود ہی اپنے گریبان میں دیکھنا ہوگا۔ ویسے بھی کسی کو نصیحت کرنے سے کہیں اچھا ہے کہ آدمی خود اپنی برائیاں دور کرے اپنے آپ ہی کو درست کر لے۔اگر وہ ایسا کر پایا تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔کیونکہ یہ کارنامہ ہے کہ آپ نے ایک بندے کو تو ٹھیک کر لیا جو خود آپ ہیں۔ اپنے آپ درست نہ کر پائے توماحول گھر کا ہو یا گھر سے باہر کا ہو ہم اس ماحول کو خراب کریں گے۔
گلی میں گالی گلوچ کرنے سے ماحول خراب ہوتا ہے او رپاس کھڑے دوسرے لوگ جن میں بچوں کے علاوہ بڑے بھی شامل ہیں آپ سے سیکھ سکتے ہیں۔اسی طرح گھرمیں ہوں توہونٹوں تک آئی ہوئی گالی کواندر واپس نگلنا ہو تا ہے۔مانا کہ اس وقت غصے کی کیفیت میں ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔مگر آپ چاہیں تو اس موقع پر اپنے مؤقف کی قربانی دے کر ماحول کو بحث و تکرار سے پراگندہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔بحث خواہ کسی قسم کی ہو اگر بحث کرنے والے اچھے ذہنوں کے مالک نہیں تو اس کا نتیجہ لڑائی جھگڑا ہے۔لڑائی جھگڑے سے گھر کے ماحول میں بے برکت ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔گھر کے کام کاج میں رکاوٹیں پڑناشروع ہو جاتی ہیں۔ کوئی بچہ بہت چھوٹا ہے مگر یہ نہ سمجھیں کہ آپ کی کسی الٹی حرکت کو وہ نوٹ نہیں کر رہا ہوگا۔اس کے ذہن میں اس سارے جھگڑے کی ریکارڈنگ ہو رہی ہوتی ہے۔جو زندگی کے کسی موڑ پر لڑائی کے دروان توتکار میں اس کو جھگڑا بڑھانے اور دل کا بخار نکالنے میں مدد دے سکتی ہے۔ہم اپنے بچوں کو جہاں اچھے کپڑے اچھی تعلیم پھر خوراک وغیرہ دیتے ہیں یا پھر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔وہاں ان کے لئے اچھا ماحول بھی تو از حد ضروری ہے کیونکہ پرورشِ جسمانی تو کھانے پینے سے ہوجاتی ہے۔بچوں کے جسم بچپن سے نکل کر جوانی میں قدم رکھتے ہیں۔مگر حالات ماحول کو سنوار نہ سکے ہوں تو پرورشِ جسمانی کے ساتھ پرورشِ روحانی نہیں ہو سکے گی۔ جس کے نتائج جہاں بچے کو بھگتنا ہوتے ہیں وہاں اس کے براہِ راست اثرات ما ں باپ پر مرتب ہوتے ہیں۔
اگر کوئی بچہ اپنے خاندا ن یا گلی محلے میں کوئی گل کھلاتا ہے۔پھر اس سلسلے میں تھانہ کچہری ہو جائے۔اس موقع پر جو سبکی اور بے عزتی ہاتھ آتی ہے اس میں والدین کو بھی خفت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بچوں کو نصیحت کرنے سے کہیں زیادہ اچھا ہے کہ انسان گھرمیں وہ غلطیاں نہ کرے جن کو اس کے بچے سیکھ کر دہراتے پھریں۔مثال یہ کہ بعض گھروں میں پستول اور طمانچوں کاماحول بھی ہوتا ہے۔ایسے ماحول میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں پستول دیوار کے ساتھ میخ پر لٹکا ہوتا ہے۔ایسے کئی کیس ہو چکے ہیں۔ جن میں خود بچوں نے اپنے بڑوں کے شوقیہ ہتھیاروں سے دوسرے کو تو کیا نقصان پہنچانا ہوگا خود اپنی جان کو نقصان پہنچا دیتے ہیں۔