آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے۔ 

  وزیر اعظم نے یورپ کو جس طرح آئینہ دکھایا ہے و ہ اس سے قبل بہت کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی ہاں میں ہاں ملانے کا بھی ایک دور تھا جس کا پاکستان کو سراسر نقصان ہی ہوا ہے اور ان ممالک نے اپنا مقصد تو حاصل کرنے میں کوئی سستی نہیں دکھائی تاہم جب بات پاکستان کے مفادات کی آئی تو ان ممالک نے چپ ساد ھ لی۔ حال ہی میں جب پاکستان نے روس اور یوکرین مسئلے پر غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا اور یورپی ممالک کو اس کی بھنک پڑ گئی کہ پاکستان جنرل اسمبلی اجلاس میں ووٹ دینے سے گریز کریگا تو وہ ہاتھ دھوکر پاکستان کے پیچھے پڑ گئے اور تمام سفارتی قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان سے یورپی یونین میں شامل ممالک کے سفیروں نے پاکستانی قیادت سے خط کے ذریعے مطالبہ کیا کہ وہ روس کی مذمت کی قرارد کی حمایت کرے۔مغربی ممالک اپنے مسئلے میں پاکستان کو گھسیٹنا چاہتے تھے تاہم پاکستان کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔ اب وزیر اعظم نے گزشتہ روزایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران مغربی ممالک کو آئینہ دکھایا اور پوچھا کہ بھارت نے بھی تو سلامتی کونسل میں روس کی مذمت سے گریز کیا۔ ان کو تو کسی نے خط نہیں لکھا، وزیر اعظم نے سوال کیا کہ کیا ہم کسی کے غلام ہیں کہ ہم پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کی جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس قدر کھل کر کسی نے اس سے قبل مغربی ممالک کو آئینہ نہیں دکھایا۔اب اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم امریکہ اور مغربی ممالک سے پاکستان کی آزاد اور غیر جانبدار پالیسی ہضم نہیں ہورہی اور اس کا نتیجہ مستقبل میں جو بھی آئے گا فی الحال ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنا اس کا نتیجہ ہے۔اس لئے تو وزیر خزانہ کو کہنا پڑا کہ اگر کسی اور ملک نے 27میں سے 26نکات پر پیش رفت کی ہوتی تو وہ ملک کب کا ایف اے ٹی ایف سے نکل گیا ہوتا۔ تاہم پاکستان کے ساتھ یہاں امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔اب کچھ باتیں اندرون ملک سیاسی ماحول کی ہوجائیں۔ بلاول بھٹو کا یہ کھلم کھلا کہنا کہ وزیر اعظم  پاکستان کو یورپ کے ساتھ لڑا رہے ہیں کئی لوگوں کی سماعتوں پر گراں گزرا ہے۔  بلاول کا اشارہ غالباً یووکرائن اور روس کے تنازعہ میں پاکستان کی روس کی حمایت کی طرف تھا جب کہ تمام یورپ کا جھکاؤو یوکرین کی طرف ہے۔ کئی سیاسی مبصرین کے مطابق بلاول نے الفاظ کے چناؤ میں مطلوبہ احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا۔خارجہ امور بڑی حساس نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان میں نہایت احتیاط لازم ہوتی ہے کئی سیاسی مبصرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایک لمبے عرصے کے بعد کہیں جاکر پہلی مرتبہ پاکستان نے ایسی درست سمت میں فارن پالیسی مرتب کی ہے کہ جو عوامی اُمنگوں کے عین مطابق ہے امریکہ پر مزید اعتماد کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ امریکہ کی اندھی تقلید سے پاکستان کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا ہے۔ ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ روس اور چین دونوں کے ساتھ ہم قریبی تعلقات استوار رکھیں اور امریکہ کے ایما پر کوئی ایسی حرکت نہ کریں کہ جو  روس یا چین کے کسی مفاد کے منافی ہو۔امریکہ نے پاکستان کے اندر اپنی حمایت میں ایک مضبوط لا بی بنا رکھی ہے جو پاکستان کو روس اور چین کے نزدیک آ نے نہیں دیتی۔ ہمسایہ ایک فرد کی صورت ہو یا ملک کی شکل میں ان کے ساتھ خوشگوار تعلقاتِ رکھنا ضروری ہوتا ہے اب ذرا چند باتیں ملکی سیاست کے مد وجزر کے بارے میں ہو جائیں دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ پبلک ڈیبیٹ public debate کا معیار بجائے بڑھنے کے گر رہا ہے نہ جانے اس سے اس ملک کی نئی جنریشن کیا تاثر لیتی ہوگی۔اب کچھ بات یوکرین کے صدر کی ہوجائے، اس سے قطع نظر کہ اس کی پالیسی درست تھی یا غلط فی الحال  یوکرائن کے صدر کی جوان مردی پر لوگ آ فرین آفرین کہہ رہے ہیں کہ جنہوں نے  حال  میں اپنی قوم  سے کہا  ہے کہ وہ اسلحہ اٹھائیں اور روس کے فوجیوں کے مقابلے کیلئے میدان جنگ میں نکل آئیں۔  اس نے امریکہ کی اس پیشکش کو بھی ٹھکرایا ہے کہ اسے ملک سے نکلنا ہو تو وہ فلائٹ کا انتظام کرلیں گے۔ اس نے جواب میں کہا کہ مجھے ملک سے باہر جانے کیلئے فلائٹ کی نہیں بلکہ ملک میں لڑنے کیلئے اسلحہ چاہئے۔ترکی اور روس کی ایک اپنی منفرد تاریخ ہے اورموجودہ بحران کو حل کرنے میں وہ موثر رول ادا کر سکتا ہے۔ روس بے شک یوکرائن اور ان ریاستوں پر اپنی دسترس قائم کرنا چاہے گا کہ جو کبھی اس کا حصہ تھے  وہ اس قدر اہم قدم اٹھانے کے بعد یہ بھی نہیں پسند کرے گا کہ بازی اس کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور کے ہاتھ میں  چلی جائے لہٰذااسے اس بات پر خوشی ہو گی اگر ترکی جیسا ملک اس قضیے کا کوئی ایسا حل نکالے کہ جس سے تیسری عالمگیر جنگ کا خطرہ ٹل جائے۔  یہ تنازعہ حل ہو سکتا ہے اگر کچھ لو کچھ دو کی  بنیاد پر ترکی کی زیر نگرانی روس اور یوکرائن کی قیادت براہ راست مذاکرات کرے گو امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ ایسا ہو۔