پاکستان میں سخت گیر مالی نظم و ضبط لاگو کرنے کیلئے ’فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)‘ کی جانب سے جو اقتصادی اصلاحاتی اہداف دیئے گئے ہیں‘ وہ اگرچہ صرف پاکستان کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب نہیں کئے گئے بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک مالی نظم و ضبط کا پیمانہ ہے لیکن پاکستان کی جانب سے اِن اہداف کے مطابق تکمیل کو بھی نہیں دیکھا جا رہا اور اُن چھوٹی باتوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جو دیگر ممالک کی صورت سخت گیر معاملہ ہے اور اِس بارے میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ مالیاتی امور کے عالمی تجزیہ کاروں نے بھی توجہ دلائی ہے۔ پاکستان کے لئے ’ایف اے ٹی ایف‘ کا رویہ شروع دن سے باعث ِتعجب نہیں کیونکہ اِس میں بھارت کا اثرورسوخ شامل ہے۔ عالمی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے نے جون دوہزاربائیس تک پاکستان کو اُن ممالک کی فہرست (گرے لسٹ) میں شامل کر رکھا ہے جن کے ہاں ہونے والی مالیاتی نظم و ضبط کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔ پاکستان شروع دن سے ایف اے ٹی ایف کے مطلوبہ اہداف کو حاصل کرنے کے لئے اقدامات کر رہا ہے اور اِس سلسلے میں نمایاں پیش رفت اور ایک جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد اسلام آباد کے غیرمتزلزل اصولی مؤقف کا منہ بولتا اظہار ہے اور اِس نیت نیتی کو ایف اے ٹی ایف نے گزشتہ چند سالوں میں تسلیم بھی کیا ہے۔ پاکستان کو جون دوہزار اٹھارہ میں گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک چونتیس میں سے بتیس ایسے اقدامات (ایکشن پوائنٹس) پر مکمل یا بڑے پیمانے پر توجہ دی گئی ہے یعنی بتیس اصلاحات کر لی گئی ہیں۔ آخری اجلاس میں ایف اے ٹی ایف (نگرانوں) نے ”پاکستان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اِس اُمید کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان باقی ماندہ شعبوں میں بھی جلد از جلد پیش رفت کرے گا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر ایک ذمہ دار ملک ہونے کی ساکھ رکھتا ہے اور اقوام متحدہ کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد یکساں اہم و ضروری سمجھتا ہے جس کی وجہ سے دنیا کو دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ گہرائی سے دیکھا جائے تو ایف اے ٹی ایف کے قواعد و شرائط پاکستان کے اپنے مفاد میں بھی ہیں کیونکہ پاکستان کسی بھی ملک سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہے اور یہاں آج بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ حال ہی میں وزیر توانائی حماد اظہر جو کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کو نکالنے کی کوششوں کے نگران اور اِس پورے عمل کی سربراہی کر رہے ہیں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی تکنیکی ضروریات پورا کرنے کے لئے پاکستان کی کوششوں کو عالمی سطح پر ’جلد‘ ہی تسلیم کر لیا جائے گا تاہم ٹاسک فورس میں پاکستان کی شمولیت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسے دوہزارآٹھ میں اور دوہزاربارہ سے دوہزارپندرہ تک بڑھتی ہوئی نگرانی کے تحت دائرہ اختیار کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مالیاتی واچ ڈاگ تنظیم (ایف اے ٹی ایف) نے بہت سے ممالک کو زیادہ سختی نہیں کی اور نہ ہی ہر ملک نے پاکستان کی طرح دیئے گئے اہداف اس تیزی سے حاصل کئے ہیں‘ اس کے باوجود بھی اسلام آباد سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ایکشن پلان کی تعمیل کرے۔ امکانات یہ ہیں کہ ’ایف اے ٹی ایف‘ کسی نہ کسی بہانے جون کے بعد بھی پاکستان کی نگرانی جاری رکھنا چاہتا ہے اور اِس کے عزائم سے عیاں کی کم از کم دو ممکنہ وضاحتیں موجود ہیں ایک تو تکنیکی حوالہ ہے کہ اِس سے پاکستان کی تعمیل میں نمایاں بہتری آئی ہے لیکن ایف اے ٹی ایف کی جانب سے اس کو ناقص قرار دیا جا رہا ہے جیسا کہ گزشتہ ماہ جاری ہونے والی تیسری فالو اپ رپورٹ کی بنیاد پر پاکستان کو تفویض کردہ مستحکم درجہ بندی سے ظاہر ہوتا ہے۔ دوسری ممکنہ وضاحت یہ سامنے آئی ہے کہ اسلام آباد کا چین کی طرف بڑھتا ہوا جھکاؤ اور حال ہی میں روس کے ساتھ قربت امریکہ سمیت مغربی دنیا کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی اور اگرچہ اِس بات کی دونوں فریقین کی جانب سے تردید ہو رہی ہے لیکن عیاں ہے کہ پاکستان کے امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات پہلے جیسی بلند سطح پر نہیں ہیں۔ اِس مرتبہ بھی جبکہ پاکستان کے لئے ’ایف اے ٹی ایف‘ کی گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات واضح ہیں توان کی کوشش ہو گی کہ وہ رائی کو پہاڑ بنا کر پیش کریں‘ جس سے نمٹنے کے لئے اضافی و پیشگی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔