یہ تو اچھا ہے اور بہت اچھا۔وہ یہ کہ کاٹھ کباڑ والے گھومتے رہتے ہیں۔وہ اپنارزق تلاش کرتے ہیں۔ان کی اس کرول سے ہمارا بھی کام چل جاتاہے۔ورنہ ہمارا نمبر شمار سب سے اوپرکہیں ہوتا۔کہیں کوڑے کے بڑے ڈرم ہوں یا بڑے ڈمپر ہوں۔ یہ آپ کو خالی نہیں ملیں گے۔اس کے اندر کوڑا توموجود ہوتا ہے۔مگر اس کے گھٹنوں تک آئے گند گریل میں کچھ چھان بورا والے بھی اندر اُترے ہوتے ہیں۔یہ لوگ وہاں سے بیکار ڈبے خالی بوتلیں اور دیگر اشیاء جن کو عام شہریوں نے فضول سمجھ کر پھینکاہوتا ہے اٹھاتے ہیں۔ معلوم ہو جاتاہے کہ قدرت نے کوئی چیز بیکار پیدا نہیں کی۔جن چیزوں کو ہم ترک کر کے کوڑے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ لوگ ان چیزوں کو بڑے بوروں میں اٹھا لیتے ہیں اور شہر بھر میں گھومتے ہیں۔
جہاں کہیں بھی کوئی ڈھیر نظر تلے آیا۔ یہ لوگ وہیں گند کوکرید کر وہاں سے اپنے مطلب کی چیزیں نکال لیتے ہیں۔پھر انھیں بڑے دکاندار کے پاس لے جاکر بیچ ڈالتے ہیں۔وہ لوگ ان کو دوبارہ کارآمد بنانے والے کارخانوں میں مشینوں کے اندر سے گذار کر نیا تازہ کر کے مارکیٹ میں بھیجتے ہیں۔ پھر آپ نے دیکھاہوگا ہمارے چمن کی کونپلیں کلیاں وہ بچے بھی یہیں کوڑے کے ڈھیروں سے اپنی ضرورت کا سامان اکٹھا کرتے ہیں اور انتہائی کم قیمت پر پوری بوری کباڑ والے کے پاس بیچ آتے ہیں۔جو کچھ بچ جاتا ہے اس کو علاقہ کی قریب کی گلیوں کے آوارہ کتے آکر راتوں کو بھنبھوڑتے ہیں نوچتے ہیں۔لوٹ کھسوٹ کے بعد اپنا من بھاتا کھاجا اُڑالیتے ہیں۔ پھر کام یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔کیونکہ صفائی والے تو آتے آتے آتے ہیں۔وہاں ان بدبُوؤں کے کارن ہماری خود کی جان جاتے جاتے بچ جاتی ہے۔
عملہ کے ہاتھوں میں نیا تازہ گند نہیں آ پاتا۔ وہ ڈھیرکچھ تو گدھوں اور بکریوں نے بھی صاف کر دیا ہوتا ہے۔کہیں بکریوں کو چرانے والے بجائے اس کے کہ ان بکریوں کو کہیں چراگاہ کی طرف ہانکیں ان کو سبزہ کھلائیں۔ وہ ان کو ان ڈھیروں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ سو یہاں بکریوں کے لئے بھی کچھ نہ کچھ خوراک موجود ہوتی ہے۔گدھا گاڑیاں آ کر رکتی ہیں۔ ان سے گدھا گاڑی چلانے والے اترتے ہیں۔ پھر گدھوں کی خوراک فروٹ وغیرہ کے چھلکے سمیٹ کر بورے میں ڈالتے ہیں اور اپنے اپنے گدھوں کے لئے لے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں مرغیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جو ڈھیر میں پاؤں مار مار کرخوراک کو اسی طرح کرید کر نکال لیتی ہے۔مگر چونکہ مرغیوں کے چوری ہوجانے
کا ڈر ہوتا ہے۔کیونکہ یہ مہنگا آئٹم تو ہے۔سو ان کو آج کل گھروں میں قید کر کے رکھا جاتا ہے۔مگر کہیں ڈھیرقریب اور نظروں کے سامنے ہو تو مرغیوں کو کچھ حد تک آزادی دی جاتی ہے کہ وہ گند میں سے اپنی خوراک نکالیں۔لیکن ایسی آزادی نہیں کہ گلے کا ہار بن جائے۔مگر خوراک نہ بھی نکالیں تو وہاں ان کی چہل قدمی تو ہو جاتی ہے۔جس سے یہ مخلوق از سرِ نو فریش ہو جاتی ہے۔سو اب صفائی والوں کے لئے جو گند بچ جاتا ہے اس میں سے اس ڈھیر کی ساری بد صورتی کی تازگی اور بدبو اڑ جاتی ہے۔ڈھیر گنجا ہو کر رہ جاتا ہے۔اب صفائی والوں کے حصے کا بہت سا کام یہ چھان بورا والے پہلے ہی خوراک کی تلاش کے نام پرکر لیتے ہیں۔ان کے ساتھ یہی جانور بھی مل جاتے ہیں اور ڈھیر کو گنجا کر دیتے ہیں۔مگر افسوس ہوگا کہ اب بھی اگر صفائی والے آنے میں دیر لگائیں تو کیا کہا جاسکتا ہے۔ ویسے اگر یہ معاملات نہ ہوتے صفائی والوں کی جگہ ڈھیر کے گند کون اٹھاتا۔یہ یونہی پڑے رہتے اور وہاں باہر کی اقوام کے پاس گندے ترین اور آلودہ ترین شہروں کی جو لسٹ پڑی ہے اس میں تو ہمارا نام نامی اوپر ہی اوپر پرواز کرتا رہتا۔