یہ امر بہت خوش آئند اور ہر حوالے سے سراہے جانے کے قابل ہے کہ وفاقی حکومت نے ماہ رمضان میں عوام کو بھرپور ریلیف دینے کا اعلان کردیا ہے اور وہ بھی ایسے حالات میں کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے سے ملکی معیشت کو پہلے ہی دباؤ کاسامنا ہے۔ رمضان میں 19 اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دی جائے گی اور رمضان ریلیف پیکیج کیلئے 8.28 ارب کی خطیر رقم منظورکرلی گئی۔ وزیرخزانہ شوکت ترین کی زیرصدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا، بعد ازاں جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اوورسیز پاکستانیوں کیلئے کامیاب اوورسیز پروگرام کی بھی منظوری دی گئی ہے۔کم آمدنی والے تارکین وطن کو بلاسود قرضے دئیے جائیں گے۔ جس کے تحت 10ہزار180 افراد کو 3لاکھ تک قرض فراہم کیا جائیگا۔ اسی طرح وزیراعظم کے اعلان کے مطابق بجلی نرخوں میں 5 روپے فی یونٹ ریلیف کی منظوری دی گئی ہے۔ یہ ریلیف پیکج مارچ سے جون2022 تک 4 ماہ کیلئے دیا جائیگا۔ریلیف پیکیج کے تحت عوام کو 136ارب روپے کی سہولت دی جائے گی۔مشکل حالات میں یہ ریلیف پیکج یقینا عوام کیلئے ایک تحفہ ہے۔
اب کچھ تذکرہ روس اور یوکرین تنازعے کا ہوجائے جہاں امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے روس پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن کا دائرہ مزید پھیلانے پر غور ہور ہاہے۔ دوسری طرف روس کے نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک کا کہنا ہے کہ روسی تیل کو مسترد کرنا عالمی منڈی کیلئے تباہ کن ثابت ہو گا اور اس کی وجہ سے قیمتیں دوگنی سے بھی زائد یعنی تقریبا 300 ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائیں گی۔امریکہ یوکرین پر حملے کے بعد روس کو بطور سزا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ممکنہ حد تک پابندیوں کے ذریعے دباؤ میں لانا چاہتا ہے اور اس نے روس سے تیل کی درآمدات پر بھی پابندی کی تجویز پیش کی ہے۔ تاہم جرمنی اور ہالینڈ نے گزشتہ روز اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔یورپی یونین کے ممالک اپنی قدرتی گیس کا تقریباً 40 فیصد اور اپنے تیل کا تقریباً 30 فیصد روس سے حاصل کرتے ہیں اور اگر اس سپلائی میں اچانک خلل پڑ جائے تو اس کے پاس فی الوقت کوئی آسان متبادل نہیں ہے۔
روس کے سرکاری ٹیلی ویژن پر ایک خطاب کے دوران روس کے نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک نے کہا کہ فوری طور یورپی مارکیٹ میں روسی تیل کا متبادل تلاش کرنا ایک ناممکن سی بات ہو گی۔ اس میں برسوں لگ سکتے ہیں اور تب بھی یہ یورپی صارفین کیلئے بہت زیادہ مہنگا ہو گا۔ بالآخر، اس سے سب سے زیادہ نقصان انہیں کو پہنچے گا۔جرمنی اور روس کے درمیان زیر تعمیر ایک نئی گیس پائپ لائن نارتھ سٹریم 2 تیار ہو رہی ہے جسے جرمنی نے گزشتہ ماہ روکنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے روسی رہنما نے کہا کہ تیل پر پابندیوں کے خلاف جوابی کاروائی بھی ہو سکتی ہے۔روس کے نائب وزیر اعظم نے کہاکہ ہمیں اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ ہم بھی انہیں کی طرح جوابی فیصلہ کریں اورنارتھ سٹریم 1 گیس پائپ لائن سے یورپ کو جو گیس فراہم کی جا رہی ہے اس پر پابندی عائد کر دیں۔اگر روس نے واقعی یہ قدم اٹھالیا تو اس سے یورپ ممالک کو شدید مشکلات کا سامنا ہوگا اور وہاں معمولات زندگی معطل ہوں گے کیونکہ جرمنی، برطانیہ اور ہالینڈ کے رہنماؤں نے پیر کے روز کہا کہ یورپی ممالک روسی توانائی کی سپلائی پر بہت زیادہ انحصار کر رہے ہیں اس لیے یورپ کے لیے راتوں رات درآمدات کو یکسر روک دینا ممکن نہیں ہے۔جس کا اظہار جرمن چانسلر اولاف شولس نے خود کیا ہے اور کہا ہے کہ گرچہ برلن نے ماسکو کے خلاف سخت اقدامات کی حمایت کی ہے تاہم یورپ میں روزمرہ کی زندگی کیلئے روس کی توانائی کی فراہمی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ فی الوقت یورپ میں حرارت، نقل و حرکت، بجلی کی فراہمی اور صنعت کیلئے توانائی کی سپلائی کسی دوسرے طریقے سے ممکن نہیں بنائی جا سکتی۔اس وقت روس جرمنی کو قدرتی گیس فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جو اس وقت ان درآمدات کا 38 فیصد فراہم کرتا ہے۔ جرمنی کی بجلی کی پیداوار میں تقریبا ًپانچواں حصہ گیس کا ہے۔برطانیہ بھی روس سے گیس اور تیل کی برآمد کو یکسر بند کرنے کی مخالفت کر چکا ہے اور برطانوی وزیر اعظم کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارے پاس متبادل سپلائی موجود ہو۔ انہوں نے کہا کہ مختلف ممالک کا انحصار مختلف نوعیت کا ہے اور ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ چاہے وہ روس سے ہی کیوں نہ ہو، آپ راتوں رات تیل اور گیس کے استعمال کو اس طرح بند نہیں کر سکتے۔اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ روس نے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑنے سے قبل ہی تمام نتائج پر غور کیا ہوگا اور اسے یہ معلوم ہے کہ یورپ کسی بھی حالت میں روس کی توانائی کے ذرائع کے بغیر نہیں رہ سکتا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ روس کو جھکانا مغرب اور امریکہ کیلئے آسان نہیں اور رو س اپنے کارڈ مہارت سے کھیل رہا ہے۔ایک طرف وہ یوکرین میں اپنی گرفت مضبوط کررہا ہے تو دوسری طرف روسی صدر پیوٹن کے منصوبے کے مطابق یوکرین کو غیر فوجی علاقہ بناکر نیٹو کو روسی سرحدات سے پرے دھکیلنے میں مصروف ہے۔