آج کل ہر عیب موبائل کی غیر ضروری ایپ بن گیا ہے۔عجیب الٹ پلٹ دور آ گیا ہے۔جو کچھ پہلے قابلِ قبول نہ تھا اب قبولِ عام کی سند حاصل کر چکا ہے۔پہلے جن باتوں اور جن کاموں کے متعلق کہتے تھے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ آج انھی کاموں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایسا کرنا چاہئے۔ عجیب ہوا چلی ہے پہلے ٹیوشن پڑھنا عیب سمجھا جاتا تھا۔ ٹیوشن کی ضرورت اس کو ہوتی تھی جو پڑھائی میں کمزور ہوتا تھا۔ اس کے لئے یا ساتھ دوسرے بچوں کے لئے باپ اگر حیثیت ہوتی تو گھر پر بچوں کے لئے ٹیوشن کا انتظام کرتا۔ اگر نہ ہوا تو ٹیوشن سنٹر بھیجتا تھا۔ ہم ٹیوشن پڑھنے جاتے تو شرما تے ہوئے جاتے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ مگر پھر بھی ہم ریاضی میں فیل ہوئے پھر اب بھی ہمیں حساب نہیں آتا۔وہ تو بھلا ہو ان کاجنھوں نے کیلکولیٹر بنایا پھر اس کو اتنا عام کردیا کہ دکانداروں نے بھی اس سے فائدہ اٹھانا شروع کیا۔ پچاس کا کیلکولیٹر مل جاتا تھا۔ چھوٹا سا ننھا منا سا۔پھر جتنا گُڑ ڈالواتنا میٹھا۔اچھے اچھے کیلکولیٹر آ گئے۔ اب تو ہر موبائل میں بہت بڑا حساب بھی جمع منفی کیا جا سکتا ہے اب لائق فائق بچوں کے لئے بھی کہ ان کی کارکردگی زیادہ بہتر ہو۔ یہ زیادہ سے زیادہ نمبر لے سکیں۔ماں باپ ان کیلئے ٹیوشن کا بندوبست کرتے ہیں۔پہلے ٹیوشن کروانے میں ماؤں کا ساتھ نہ تھا۔کیونکہ زیادہ تر مائیں ان پڑھ تھیں۔مگر جب سے تعلیم عام ہوئی۔اگر والد ٹیوشن کا بندوبست نہ کرے تو ماں اپنے بچوں کو خود ٹیوشن سنٹر لاتی لے جاتی ہے۔اب ماں باپ دونوں اس کارکردگی میں برابر حصہ لیتے ہیں پہلے تو کہیں کہیں ٹیوشن کے مراکز تھے۔
ہائے پروفیسر محفوظ جان گل بہار میں اور گنج دروازے کے اندر پروفیسر شمیم۔دونوں عظیم ہستیاں دنیا چھوڑ گئیں۔ مگر ”آنکھ سے دور سہی دل سے کہا ں جائے گا۔ جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا“۔پھر ان اساتذہ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے دوسرا شعر ملاحظہ ہو ”وقف ہے ذہن مرا تیرے تصور کے لئے۔تجھ کو بھولا ہی کہاں ہوں جو تجھے یاد کروں“۔انمول اساتذہ تھے۔پھراب بھی اس پایے کے ٹیچر موجود ہیں۔بس اپنی اپنی وابستگی کی بات ہے۔کون کسے اور کوئی کس بات پر کس کو کہاں یاد کرتا ہے اور یاد رکھتا ہے۔آج جب ہم بھی کلاس میں کھڑے ہو کر پڑھاتے ہیں تو اپنے لب و دہن سے ان اساتذہ کو بولتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔جیسے میں نہیں بول رہا پروفیسر شمیم صاحب ہیں جو لیکچر دے رہے ہیں یا محفوظ جان صاحب ہیں جو کلاس سے مخاطب ہیں۔ہم ان کے ہاں ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے۔ کیا لوگ تھے کیا کہتے تھے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو آج ہم بھی کالج میں ٹیچر نہ ہوتے۔اب تو لائق اور نا لائق کی تمیز اٹھ چکی ہے۔ ہر سٹوڈنٹ چاہتا ہے اور ہر طالب علم کے والدین کی خواہش ہے کہ ہماری اولاد ساتھ میں ٹیوشن بھی پڑھے تاکہ نمبروں کے اس گیم میں وہ کافی سے زیادہ اور اس سے بھی زیادہ نمبر حاصل کریں۔کیونکہ اس کو فلاں کالج میں داخل کروانا ہے۔
اس نے ڈاکٹر اور انجینئر بننا ہے مگر آج تو حال برا ہے لاکھوں روپیہ سمسٹروں پر ضائع کر کے بچے کو پڑھا کر ڈاکٹر انجینئراور جانے کیا کیا بنوا دو۔ مگر اس کے لئے نوکری جو نہیں۔ تعلیم تو مان لیا ہو رہی ہے۔مگر ان کے سامنے بیروزگاری کا بھوت جو راستے میں مخل ہو کر کھڑا ہے۔یہ وہی بیروزگار لوگ ہیں جن کو اعلیٰ تعلیم زیادہ خرچہ کر کے دلوائی گئی۔پہلے تو جس نے میٹرک بھی کیا ہوتا توبڑا کارنامہ تصور کیا جاتا سن انیس سو ساٹھ میں پشاور میں جس نے میٹرک کا امتحان پاس کیاہوتا گویا سی ایس ایس کر لیاہوتا یا چارٹرڈ اکاؤٹنٹ بن گیا ہوتا۔خاندان بھر کے لوگ اس کو صرف دیکھنے آتے۔ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے کہ اتنا کم عمراتنا بڑاامتحان پاس کر لیا ہے آج ٹیوشن کیا خود نقل کرنا عیب نہیں۔بچہ نقل کر کے پرچہ حل کرتا ہے اور فخریہ انداز سے گھر آکر اس کا تذکرہ ماں باپ سے کرتا ہے۔وہ بھی خوشی سے جھوم جاتے ہیں۔کہتے ہیں چلو تمھاراکام چل گیا۔ آج تو بس کام چلانے والا وقت ہے۔کسی نہ کسی طرح کام چل جاتا ہے۔