فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پھر پاکستان کو جون تک گرے لسٹ میں رکھ چھوڑ دیا ہے۔یہ اس کے باوجود کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے سرمائے کی غیر قانونی منتقلی کی روک تھام کے پائیدار اور مستحکم نظام اور دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کے خاتمے کیلئے پاکستان کے پختہ عزم کا اعتراف کیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین کے مطابق ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے معاملے میں میرٹ پر فیصلہ نہیں کیا بلکہ مخالف لابی کے دبا ؤمیں کیا۔ان کے بقول اہداف پورے کیے جانے کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنا بلاجواز ہے۔پاکستان کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے مناسب یہی لگتا ہے کہ اسے ایف اے ٹی ایف کے ساتھ تعاون جاری رکھنا چاہئے اور اسے غیر ضروری طور پر آ بیل مجھے مار والا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔
ایف اے ٹی ایف میں یورپی ممالک بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور وزیراعظم عمران خان کی یوکرین اور روس مسئلے پر اختیار کی گئی پالیسی پر ان کی تنقید سامنے آئی ہے۔ ہمیں فی الحال پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ظاہر ہے ایف اے ٹی ایف کے کسی فیصلے کے پیچھے کوئی قانونی اختیار اور جواز نہیں ہوتا مگر اس کے کرتا دھرتا پابندیوں کی دھمکیاں دے کر یا پابندیاں لگاکر ممالک کو اپنی اطاعت پر مجبور کردیتے ہیں۔ایف اے ٹی ایف کو جی سیون کی تنظیم نے 1989 میں قائم کیا جس کا مقصد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی سے مالیاتی تعاون کی روک تھام ہے۔ اس میں مختلف براعظموں سے تعلق رکھنے والے 37 ممالک، دو علاقائی تنظیمیں خلیج تعاون کونسل اور یورپی کونسل اور 31 عالمی اور علاقائی تنظیمیں بطور ایسوسی ایٹ ارکان یا اور انڈونیشیا بطور آبزرورز شامل ہیں۔
ایف اے ٹی ایف میں شامل اہم ممالک میں امریکہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، کینیڈا، جاپان، روس، اسرائیل، بھارت ترکی، سعودی عرب اور چین شامل ہیں۔ایف اے ٹی ایف نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے دو فہرستیں قائم کی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جن پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کا الزام ہوتا ہے اور وہاں انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور قواعد میں سقم موجود ہو مگر وہ ممالک ان کی روک تھام میں ایف اے ٹی ایف سے تعاون نہیں کرتے۔اس کے برعکس گرے لسٹ میں شامل ممالک پر منی لانڈرنگ کے متعلقہ قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں مگر وہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مل کر ان قانونی خامیوں کو دور کرنے اور روک تھام میں تعاون کرتے ہیں جو انہیں ایکشن پلان تیار کرکے دیتا ہے اور وہ ممالک ان پر ایف اے ٹی ایف کی نگرانی میں عمل کرتے ہیں۔ایف اے ٹی ایف کی رکنیت کی شرائط کو دیکھیں تو اس میں صرف وہی ممالک شامل ہوسکتے ہیں جن سے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی خوش و مطمئن ہوں اور وہ ان کے مخالف کیمپ میں نہ ہو۔
اگر غور کریں تو یہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کی مشترکہ کاوش ہے جس کے تحت وہ ان ممالک کو دباتے رہتے ہیں جو ان کے کیمپ میں نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی موجودگی میں ایف اے ٹی ایف کا جواز نظر نہیں آتا مگر بظاہر اس کا سبب یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے کسی ملک کیخلاف فیصلہ کرنا اور اس پر پابندیاں لگوانا مشکل تھا کیوں کہ وہاں روس اور چین ان کا راستہ روکتے تھے اس لیے امریکہ اور اس کے عالمی و یورپی اتحادیوں نے ایف اے ٹی ایف قائم کیا جس کے اندر وہ دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے نام پر کسی کوبھی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے علی الرغم ایف اے ٹی ایف اس لیے قائم کیا گیا کہ وہاں ان کی دال نہیں گل رہی تھی اور اب ان کے خیال میں اقوامِ متحدہ کی ضرورت نہیں رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے وقت میں اقوام متحدہ مزید کمزور ہوگی اور ایف اے ٹی ایف، یورپی یونین، جی سیون جیسی تنظیمیں مزید مضبوط۔بھارت کی کوشش رہی ہے کہ وہ پروپیگنڈے کے زور پر پاکستان کو دہشت گردی کی مالی معانت اور منی لانڈرنگ قوانین کی خلاف وعزی کا مرکب ثابت کرسکے۔ مگر ترکی، سعودی عرب اور چین ہمیشہ پاکستان کے حق میں توانا آواز کی صورت سامنے آتے ہیں۔