بالاخر بلی تھیلے سے باہر آ چکی ہے۔ حزب اختلاف نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جسے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے وصول کیا اور یوں آئین پاکستان کی دفعہ ’پچانوے دو ایک‘ کی رو سے تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی سات دن کے اندر اجلاس طلب کرنے کے پابند ہیں۔ اِس تحریک پر مسلم لیگ نواز‘ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے مجموعی طورپر چھیاسی ارکان ِ قومی اسمبلی کے دستخط موجود ہیں جبکہ 172 اراکین کی حمایت چاہئے۔ قومی اسمبلی میں حزب ِمخالف سے تعلق رکھنے والے ارکان کی کل تعداد ایک سوباسٹھ ہے۔ جن مسلم لیگ نواز کے 84‘ پیپلزپارٹی 56‘ متحدہ مجلس عمل 15‘ بلوچستان نیشنل پارٹی چار‘ عوامی نیشنل پارٹی ایک اور آزاد امیدواروں کی تعداد 2 ہے اور اِن کے مقابلے میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کی کل تعداد179 ہے۔ جن میں تحریک انصاف کے 155‘ ایم کیو ایم پاکستان کے سات‘ مسلم لیگ قائد اعظم کے پانچ‘ بلوچستان عوامی پارٹی کے بھی پانچ‘ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے تین‘ آل پاکستان مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک ایک جبکہ 2 آزاد امیدوار حزب اقتدار کا حصہ ہیں۔اس طرح دونوں گروہوں میں صرف سترہ ووٹوں کا فرق ہے لیکن حزب اختلاف کا دعویٰ یہ ہے کہ اسے تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک سے تعلق رکھنے والے پچیس ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے۔جس کے نتیجے میں اپوزیشن کے حامی ارکان کی تعداد ایک سو باسٹھ سے بڑھ کر ایک سو ستاسی ہوجائے گی جبکہ حکومتی ارکان کی تعداد پچیس ارکان کے منہا ہونے سے ایک سو چوون رہ جائیگی۔ اگر ایسا ہوا توعدم اعتماد کیلئے اپوزیشن ایک عرصہ سے سرگرم عمل تھی۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد اسی لئے بنایا گیا تھا کہ حکومت کیلئے مشکلات پیدا کی جائیں۔ ملکی سیاست کی اونچ نیچ اور باریکیوں سے واقف حال اور انتہائی باخبر مسلم لیگ نواز کے برطانیہ میں مقیم قائد میاں نوازشریف سے اس ضمن میں قدم قدم پر رہنمائی دے رہے ہیں۔ اسی مسئلے پر پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے درمیان اختلافات کی بنا پر ان دونوں جماعتوں نے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کئے رکھی چنانچہ اس دوران ملک میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور آزاد کشمیر انتخابات میں یہ جماعتیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہوئیں اور قائدین نے سیاسی جلسوں میں پی ڈی ایم کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا تاہم یہ تمام جماعتیں ایک بار پھر متحد ہو گئیں ہیں کیونکہ اِنہیں اپنی بقا اِسی میں نظر آتی ہے ساری نظریں جہانگیر ترین گروپ پر ٹکی ہیں جس پیر کے حالیہ اجلاس میں اُنیس ارکانِ اسمبلی علاوہ عبدالعلیم خان شریک ہوئے اور اس طرح خود کو ایک بار پھر سیاست میں ”فعال“ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ جہانگیر ترین گروپ کا مؤقف ہے ملک بھر میں بالخصوص پنجاب کے طرز حکمرانی پر اعتراض ہے اب جبکہ حزب اختلاف کی طرف سے وزیر اعظم کی خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی ہے تو حکومت نے بھی جوابی اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ نے انتخابات سے قبل بھی انتہائی متحرک کردار ادا کیا تھا اور اب جبکہ حکومت کے خلاف اپوزیشن متحدہ محاذ قائم کئے ہوئے ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی معاملے کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے اس کی سنگینی و باریکیوں سے آگاہ ہیں لیکن اپنا ردعمل نہیں دے رہے۔ اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کے رہنما اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کا یہ انتباہی بیان معنی خیز (توجہ طلب) ہے کہ ”سیاسی حالات ہاتھ سے نکل رہے ہیں‘ حکومت بڑا فیصلہ کرے‘پھر اِسے بڑے فیصلے کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔