شہر تو بن چکا ہے۔مگر اس کی تزئین و آرائش کا کام مکمل نہیں ہو پارہا۔شہری اپنے باپ دادا کی تعمیر سے شاید خوش نہیں ہو پا رہے۔ پرانی عمارات ڈھا کر نئی بنیادیں اٹھائی جا رہی ہیں۔گھر زمین بوس کئے جارہے ہیں۔پھر اسی جگہ ایک نیا گھر بن رہا ہے۔پھر گھر بھی چار منزلہ ہے۔ نیچے کے پورشن میں دکانوں کی زیادہ سے زیادہ گنجائش رکھی گئی ہے۔تاکہ ایک مارکیٹ کی شکل بن جائے۔مگر اپنے لئے دکانیں بناتے تو بڑے سائز کی ہوتیں۔ یہ تو کرایے پر دینے کو ہیں۔فی دکان چونکہ کرایہ لینا ہوگا۔اس لئے چھوٹی چھوٹی دکانیں بنا کر زیادہ آمدن کی سبیل نکالی جا رہی ہے۔یہ کچھ برا تو نہیں۔ جیسے جیسے حالات و واقعات بدلتے ہیں وہاں منصوبہ بندی کیلئے دماغ کواور مواد مل جاتا ہے۔شہر کے باہر تو تعمیری اور تعمیراتی سلسلے اپنے عروج پر ہیں۔ کیونکہ اپریل کے شروع میں رمضان کا آغاز ہو جائے گا۔اس لئے تعمیر بھی تیز تر کردی گئی ہے۔پھر ساتھ میں گرمی کے موسم کے آنے کا خوف بھی ہے کہ اکیس مئی سے گرمی کا سچ مچ آغاز ہو جاتا ہے۔ اس لئے سوچتے ہیں جو کرنا ہے جلدی کرو۔پھر تو بندے کے لئے تکلیف زیادہ ہو جائے گی۔
خدا جانے ان کو کیوں اتنی جلدی ہے۔شہر کے اندر جو تعمیر و مرمت کے سلسلوں کی بہتات کا حال ہے وہ تو اپنی جگہ ہے۔مگر جو لوگ شہر میں اپنے ذاتی مکانات مہنگے داموں فروخت کر کے بیرون از شہر رہائش کئے ہیں۔وہ تین مرلہ جگہ بیچ باچ کر خوب رقم بٹور کر شہر کے سولہ دروازوں کے بہت باہر دور تک جا کر اسی تین مرلہ کے مکان کو فروخت کرنے پر حاصل ہونے والی رقم سے دس مرلہ کا پلا ٹ بھی خرید رہے ہیں اور ساتھ ہی ان کو باہر ایک نیا گھربنانے کی بھی سوجھی ہے۔پھر اکثر مقامات پر نیا گھر بھی پہلے مارکیٹ بنا کر تعمیر کیا جارہا ہے۔شہر کے اندر اب تو دائیں بائیں وسعت کی گنجائش نہیں رہی۔ اس لئے کوئی بھی شہر ہو اگر شہری وہاں سے نکل کرباہر تعمیرات نہیں کرتے تو اندرون ِ شہر ہی اپنے یک منزلہ مکان کو گرا کر چار چھتوں والے مکانات بناتے ہیں۔ شہروں میں وسعت دائیں بائیں نہیں ہوتی بلکہ نیچے سے اوپرکو اٹھتی ہے۔ بڑے شہروں کا یہی اصول ہے۔اسی لئے تو شہر کا ماحول زیادہ سے زیادہ تنگ و تاریک ہوتا جا رہا ہے۔جہاں صبح دم خورشید کف کے بیچ اپنی نارنجی کرنوں کا جام لئے آتا ہے تو کسی کو دکھائی بھی نہیں دیتا۔کیونکہ بلند وبالا اٹھی ہوئی عمارتوں کی چوٹیوں کے پیچھے سے بھلا ابھرتا ہوا آفتاب جو ان بلڈنگوں کے اوپر دوپہر کو بارہ بجے نظر آئے گا صبح سویرے کیسے دکھائی دے۔پھر دیر سے نیند ختم کرنے والے آنکھوں کی خماریاں دن کے دس بجے ظاہر کرتے ہیں۔
شہر میں بڑھنے والی حبس کی وجہ یہی ہے کہ زیادہ تر شہری جیب بھاری ہو تو اپنے ہی گھر کو زیادہ منزلیں ڈال کربناتے ہیں او رزندگی کو انجوائے کرتے ہیں۔مگرجو لوگ ضرورت کے ستائے ہیں وہ انھی پیسوں سے باہر گھر بنا کر خود کے لئے کسی دکان وغیرہ کا بندوبست بھی کر لیتے ہیں۔شہر کے باہر تعمیراتی سلسلہ اس حد تک درواز ہو چکا ہے کہ کوئی سڑک باقی نہیں بچی جہاں ٹریکٹر ٹرالیوں کاآنا جانانہیں ہوتا۔ دن کو بھی عام اور را ت کے اندھیرے میں بھی ان کی خاص ٹریفک ہے۔ ایک شاول ہے تو سامنے سے آ رہا ہے۔ کہیں مٹی کریدے گا۔نہروں کے کناروں کو نوچ کھرچ کر مزید کمزور کر دے گا۔ پھن پھیلائے ناگ کی طرح ایک سامنے سے آ رہاہے دوسرا شاول شایدخود ہمارے ہی تعاقب میں ہو۔کسی کل قرار نہیں. نہ توخود ان کو نہ ان کے ہاتھوں خود ہمی کو۔ جانے یہ تعمیر کب مکمل ہوگی۔ کوئی بری بات نہیں مگر ان کا پیدل چلنے والوں پر جوخواتین بھی ہیں اور بچے ہیں دھیان نہیں ہوتا۔ ان کی غفلت کی وجہ سے حادثے بھی ہوئے۔نوعمر لڑکوں کے ہاتھوں میں اتنی بڑی ٹریکٹر ٹرالی کے سٹیرنگ دے دیتے ہیں۔وہ تو کم عمر ہیں سو وہ پتلی اور چھوٹی سڑکوں پر رش کے عالم میں ا س طرح ٹریکٹروں کو بھگاتے ہیں جیسے ٹریکٹروں کی ریس ہو رہی ہو۔یہ سڑک کے موڑ پر آنے والی ٹریفک کو سارا کا سارا نگل لیتے ہیں۔ سب کچھ ساکت و جامد ہو جاتا۔ غور کرو کہ ہوا کیا جو اچانک رش بن گیا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ موڑپر ٹریکٹر پھنسا ہواہے۔تعمیرہر دور میں ہوتی آئی ہے۔ گذشتہ کل اور آنے والے کل بھی۔مگر یہ سب کچھ ایک پلاننگ سے ہو تو کتنا اچھا ہے۔