عاصمہ رانی قتل کیس،خیبرپختونخوا حکومت نے راضی نامہ عدالت میں چیلنج کردیا 

پشاور:خیبر پختونخواکی حکومت عاصمہ رانی کے قاتل کے خلاف ڈٹ گئی ہے۔

جمعرات کو  پشاور ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے مقتولہ کے خاندان کی مجرم کے ساتھ صلح کے خلاف اپیل پر دلائل دیے۔

نجی ٹی وی کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں گزشتہ روز  عاصمہ رانی قتل کیس میں مرکزی مجرم کے ساتھ صلح کے معاملے پر صوبائی حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی۔سماعت جسٹس روح الامین اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔

اے اے جی محمد نثار خان نے عدالت کو بتایا کہ میڈیکل کی طالبہ عاصمہ رانی کو رشتے سے انکار پر گھر کے سامنے قتل کیا گیا، مجرم مجاہد آفریدی نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر طالبہ کو قتل کیا اور فرار ہو گئے۔

 مقتولہ نے حالت نزع میں بھی مجرم مجاہد آفریدی کا نام لیا اور اس کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے،مجرم مجاہد آفریدی شادی شدہ ہے اور وہ عاصمہ رانی سے شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن رشتے سے انکار پر مجرم نے میڈیکل کی طالبہ پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا، اس کیس کا ٹرائل چلا، جس میں مجرم مجاہد آفریدی کو سزائے موت اور ان کے ساتھیوں کو بری کیا گیا۔

اے اے جی کے مطابق اب مقتولہ کے خاندان نے مجرم کے ساتھ راضی نامہ کر لیا ہے، مجرم بااثر ہے، اگر اس طرح قتل کر کے راضی نامے ہوتے رہے تو پھر ایسے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا، بااثر لوگوں کو اگر اس طرح معاف کیا جاتا رہا تو فساد فی الارض پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگا، اس لیے صوبائی حکومت نے راضی نامے کو چیلنج کیا ہے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔

عدالت کو بتایا گیاکہ مقتولہ کا خاندان صرف قصاص معاف کر سکتا ہے تعزیر کی سزا معاف نہیں کر سکتا، مجرم پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس کے دو بچے بھی ہیں، اس کیس میں سزا کا اختیار عدالت کے پاس ہے۔

جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ قانون اس حوالے سے قرآن و سنت سے رہنمائی کی ہدایت کرتا ہے، اگر فساد فی الارض بھی ہے تو اس میں بھی قرآن و سنت کی رہنمائی لینی ہے۔

اے اے جی نے کہا سپریم کورٹ نے بھی اس کیس میں نوٹس لیا تھا، طالبہ کو قتل کرنے کے بعد مجرم سعودی عرب فرار ہوگیا تھا، اور مجرم کو انٹرپول کے ذریعے سعودی عرب سے واپس لایا گیا۔

عدالت نے اے اے جی کے دلائل سننے کے بعد سماعت 29مارچ تک ملتوی کر دی۔