معیشت بمقا بلہ سیا ست

عنوان عجیب لگتا ہے لیکن عجیب نہیں ہے آج کل کے دور میں معیشت اور سیا ست ایک دوسرے کے مقا بل آگئے ہیں نیٹو، روس،امریکہ اور یوکرین کی سیا ست نے دنیا کا معاشی نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کے بعد ہر چیز مہنگی ہونے لگی ہے۔ممالک کے درمیان پہلے سے موجود معاہدوں پر نظر ثانی ہونے لگی ہے اور دوست و دشمن کا تعین از سر نو کیاجارہا ہے۔ وطن عزیز پا کستان کے اندر اعتما د اور عدم اعتماد کی ایک ہفتے کی سیا ست نے سٹاک مارکیٹ کونقصان پہنچا یاہے اور سٹاک ما ر کیٹ 76ارب روپے سے نیچے گر کر 74ارب سے کچھ کم ہو چکی ہے اور تنز لی کا رجحا ن جا ری ہے‘ مالیاتی زبان میں سٹاک ما ر کیٹ تر قی کرے تو اس کو بیل سے تشبیہہ دی جا تی ہے انگریزی میں Bullishکہا جا تا ہے جب سٹا ک مار کیٹ تنزلی کا شکا ر ہو تو اس کو ریچھ سے تشبیہہ دی جا تی ہے انگریزی میں Bearishکہا جا تا ہے اعتماد اور عدم اعتما د کے کھیل میں پا کستان کی سٹاک مار کیٹ ریچھ سے بھی نیچے گر کر کچھوے کی رفتار پر آگئی ہے آگے مزید گر نے کا خطرہ موجو د ہے قانونی پنڈ توں‘ آئینی امور کے ما ہرین اور پارلیما نی آداب سے واقفیت رکھنے والے دانشوروں کے تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ اعتما د اور عدم اعتما د کا کھیل مختصر دورا نیے کا کھیل نہیں ہو تا یہ کھیل 5ٹیسٹ میچوں کی سیریز سے بھی لمبا وقت لے لیتا ہے تحریک کی قرار داد آنے کے بعد اسمبلی کا اجلا س بلا نے میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں اگر سیاسی بے یقینی اور انتشار کی اس کیفیت کو سٹا ک مار کیٹ کی نظر سے دیکھا جا ئے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل میں معیشت پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوگا۔ قوم کو بے یقینی اور گو مگوں کی کیفیت میں مبتلا کرنے والے دونوں فریق سمجھتے ہیں کہ یہ سیا ست ہے اور اس میں سب کچھ جائز ہے‘۔
معیشت کا محاذ بڑا نا زک محا ذ ہے یہ سونے کی منڈی کی طرح صبح سے شا م تک کئی رنگ اور کئی نر خ بدلتا ہے اگر صبح 6بجے ایک رنگ اور ایک نر خ ہے تو ایک گھنٹہ بعد دوسرا رنگ اور دوسرا نر خ ہو گا، معیشت کا عکس بدلتا نظر آتا ہے اگر دن کے 12بجے حصص میں دو کروڑ کا فائدہ ہوا تو کوئی بعید نہیں کہ دن کے 2بجے یہی فائدہ نقصان میں بدل جا ئے‘ سٹاک ما رکیٹ کا تا جر قومی اور بین الاقوامی حا لات کی نبض پر ہا تھ رکھے ہوئے ہے حالات دگر گوں نظر آئیں تو مارکیٹ کو گرا دیتا ہے حا لات پر سکوں مل جا ئیں تو با زار اور حصص میں تیزی آجا تی ہے سٹاک مارکیٹ سے بازار سیاست کی سیر کرنے والا جب دوستی اور دشمنی کے رنگ دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے۔معیشت میں دو جمع دو چار ہی ہو تا ہے یہ ریاضی کا اصول ہے جبکہ سیاست میں دو جمع دو کا حاصل جمع تین بھی ہو سکتا ہے، لو گ کہتے ہیں سیاست پا لیسی کا نا م ہے۔ تاہم اس پالیسی میں اولین ترجیح یہی ہونی چاہئے کہ ایک عام آدمی کی زندگی کو پر سہولت اور آسان بنایا جائے۔یعنی اگر آپ کی سیاست سے عام آدمی کا بھلا ہورہا ہے تو یہ یقینا قابل ستائش ہے تاہم اس کے برعکس اگر آپ کی پالیسی سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہورہاہے تو پھر اسے کسی بھی طرح اچھا نہیں سمجھا جائیگا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ معیشت کے متاثر ہونیکا مطلب عام آدمی کامتاثر ہونا ہے۔