بین الاقوامی مالیاتی فنڈ میگزین واشنگٹن نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کو ایسے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر رکھا ہے، جہاں صاف پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔تاہم اس کے باوجود ہمارے ہاں پانی کے استعمال میں اسراف یعنی اس کا بے جا استعمال انتہائی حدود کو چھو رہا ہے۔ اب گاڑیوں کو دھونے کیلئے صاف و شفاف پانی کی کیا ضرورت ہے جب انسانوں کو پینے کیلئے صاف پانی کی قلت کا سامنا ہو۔ گاڑیاں دھونے والے سروس سٹیشنوں کیلئے ایسا کوئی قانون بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے استعمال شدہ پانی کو بار بار استعمال کریں اور زمین سے تازہ اور شفاف پانی کے استعمال کو ممکنہ حد تک کم کیا جائے۔ اگر ان کو پابند کیا جائے کہ وہ استعمال شدہ پانی کوری سائیکل کرکے دوبارہ استعمال میں لائیں گے تو اس سے صاف پانی کو زمین سے کھینچنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور پینے کے پانی کی قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ آبپاشی اور پینے کے پانی کی بڑھتی ہوئی قلت پر قابو پانے کیلئے اب تک مقامی سطح پر کئی منصوبوں پر کام کا آغاز کیا گیا ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں نینو کلے نامی دھات فراوانی سے موجود ہے جو پانی کی صفائی کے حوالے سے اہم عنصر ہے۔پنجاب میں موجود مونٹ موریلونائٹ قدرتی نینو مٹیریل گارہ ہے، جسے نینوکلے بھی کہا جاتا ہے۔
یہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں عام پایا جاتا ہے۔ اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایلومینیم آکسائیڈ کی دو تہوں کے درمیان سلیکا کی ایک تہہ ہوتی ہے۔ یہ انتہائی لچک والا مسام دار مادہ نمی جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور زہر و بیکٹیریا کش بھی ہے۔ وقت کے ساتھ از خود گاڑھا ہو کر لیس دار مادے میں تبدیل ہو جانے کی انوکھی خصوصیت کے باعث مونٹ موریلو نائٹ کو دنیا بھر میں پانی کی صفائی کے علاوہ، طب، صنعت، الیکٹرانکس اور کاسمیٹکس میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ مونٹ موریلو نائٹ کو دنیا بھر میں پانی کی صفائی کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرت نے پاکستان کوفیاضی کے ساتھ مختلف معدنیات سے نوازا ہے تاہم ان سے استفادہ کرنے میں ہماری کمزوری سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ہمارے ہاں پانی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے مواقع کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں تاہم باجود اس کے اگر ڈیزل اور این ایل جی سے بجلی پیدا کی جارہی ہے تو اسے یقینا ہماری کوتاہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہوا اور شمسی توانائی پر منتقل ہونے سے اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔
ایک ایل این جی ٹرمینل لگانے میں تقریباً 40 سے 50 کروڑ ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ جس میں نئے ٹرمینل چلانے کے اخراجات اور درآمدی ایندھن کی لاگت شامل نہیں جبکہ دوسری جانب اس کے مقابلے میں اگر 6 لاکھ ڈالر فی میگاواٹ کے حساب سے کوئی سولر پلانٹ لگایا جائے تو ایل این جی ٹرمینل کی لاگت میں ہی ایک ہزار میگاواٹ کا سولر پلانٹ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سولر پلانٹ سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسز ایل این جی سے خارج ہونے والی گیسز کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں کوئلے کے ذخائر پہلے سے بھی موجود ہیں اور نئے بھی دریافت ہوئے ہیں تاہم کوئلے سے بجلی کی پیدوار کے سلسلے میں بھی ماحول دوستی کادامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے دوسری طرف ہمیں ایل این جی کے کوئلے سے زیادہ محفوظ ہونے کے دعوے میں بھی احتیاط برتنی چاہئے۔پاکستان میں وسائل کی کمی کو دیکھتے ہوئے اب بھی وقت ہے کہ ایل این جی کے شعبے سے سرمایہ نکال کر ماحول دوست متبادل شعبوں میں لگایا جائے جن میں پانی، ہوا اور سورج کی توانائی سے استفادہ کرنا سر فہرست ہے۔