پشاور کہانی: ہے ’الم‘ کا سورہ بھی جزو کتاب ِزندگی

آج جمعتہ المبارک ہے۔ ایک ہفتہ قبل آج ہی کے دن‘ پشاور جامع مسجد‘ کوچہ رسالدار کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جس کا ’قومی سوگ‘ منایا گیا اور یہ ناقابل بیان دکھ تاحال محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مسجد پر حملے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں پہلے سے زیادہ چوکس کر دیا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ (انسپکٹر جنرل) معظم جاہ انصاری نے ضلعی نگرانوں سے ’آن لائن‘ اجلاس میں پورے صوبے میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے عبادت گاہوں سمیت جملہ مذہبی مقامات کی حفاظت (سکیورٹی) پر نظرثانی کی ہدایات دی ہیں تاہم خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں ’پولیس فورس‘ کو جس افرادی و تکنیکی وسائل کی کمی کا سامنا ہے اِس پر خاطرخواہ غور نہیں ہو رہا۔
 صوبائی فیصلہ سازوں کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ خیبرپختونخوا کے کئی ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں کے پورے ضلع میں پولیس کی نفری ہزار سے پندرہ سو کے درمیان ہے۔ دہشت گردی کا خطرہ ایک مرتبہ پھر سروں پر منڈلا رہا ہے اور خیبرپختونخوا کے اٹھارہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے (اکتیس مارچ) کیلئے بھی متعلقہ اضلاع نے پشاور سے اضافی نفری طلب کی ہے۔ افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ریزرو پولیس فورس اور دیگر فوجی و نیم فوجی دستوں کی خدمات سے حسب ضرورت استفادہ کیا جاتا ہے لیکن چونکہ دہشت گردی کا مسئلہ زیادہ گھمبیر ہے اِس لئے صوبائی فیصلہ سازوں کو پولیس فورس کی افرادی کمی پوری کرنے کیلئے وسائل ترجیحاً مختص کرنے چاہئیں۔ یہ اَمر بھی توجہ طلب ہے کہ جس تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے‘ اُس تناسب سے پولیس اہلکاروں اور تھانہ جات کی تعداد میں اضافہ نہیں ہو رہا۔
 پولیسنگ کا ”عالمی معیار“ یہ ہے کہ کسی بھی شہر‘ ضلع یا دیہی علاقے میں ہر 450 افراد کے تناسب سے ایک پولیس اہلکار جبکہ ہر ایک لاکھ کی آبادی کے لئے 220 پولیس آفیسرز ہونے چاہئیں۔ عوامی سطح پر پائے جانے والے اِس تاثر کی اصلاح بھی اپنی جگہ ضروری ہے کہ جرائم ہوں یا دہشت گردی ”اِن کے سدباب کے لئے صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ذمہ دار ہیں۔“ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ معاشرے کے ہر فرد کو اپنے گردوپیش پر نظر رکھنی چاہئے اور کسی بھی مشتبہ سرگرمی یا غیرمعمولی نقل و حرکت سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کرنا اپنی ”قومی ذمہ داری“ سمجھنی چاہئے کیونکہ جس معاشرے کی آنکھیں (قوت ِبصارت) اور کان (قوت ِسماعت) ہی نہ رہے‘ وہاں صرف ’پولیسنگ‘ سے بہتری نہیں لائی جا سکتی۔