ہارن پہ ہارن

یہ سوچ ہونی چاہئے کہ سڑک صرف میری ہی نہیں۔اس پرجتنا حق میرا ہے اتنا ہی اس پر دوسروں کا حق ہے۔مگر بعض لوگ سڑک کو خواہ کوئی سڑک ہواپنے پُرکھوں کی جائیداد سمجھ لیتے ہیں۔پھر اس حد تک کہ کسی دوسرے کا وہاں سے گذر ان کو گوارا ہی نہیں۔مستری نے میرے بائیک کا ہارن بدلا تو مجھ سے کہا ذرا چیک کر لیں۔میں نے کہا بس ٹھیک ہے آپ نے بجاکر دیکھ لیا۔ مجھ کو بھی دکھا دیا اور سنا دیا۔ہم تو ہارن نہ بجانے کی قسم کھا چکے ہیں۔مگر دوسرے ہیں کہ ہارن کے بٹن پر جب انگلیاں پیوست کر دیتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ ان کی چار پایوں کی گاڑی کا سٹیرنگ او ران کی انگلیاں جیسے کارخانے سے ایک ہی چیز بنا کر بھیجی گئی ہیں۔اب بائیک والا بیچارہ کتنی جگہ گھیرتا ہے۔اگر وہ سڑک پر کسی دکاندار کے پاس کھڑا ہو کر منٹ دو منٹ کو سودا خرید رہاہو۔ مگر آدھا منٹ ہی گذرتا ہے کہ پیچھے آنے والی گاڑیوں کے ڈرائیور اس کو وہاں سے ہٹ جانے کی ہدایت کرتی ہیں۔اپنے ہارن بجانا شروع کر دیتے ہیں ذرا برابر صبر نہیں۔ سڑک پر تو کوئی ایک دوسرے سے تعاون نہیں کرتا۔ ہر ایک کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ آگے سے ہٹو اور مجھے راستہ دو۔
 کہیں کسی کھڈے میں گرو۔ بس آگے سے ہٹو۔ ہر چند کہ آپ کے ساتھ بائیک پر بال بچے بھی سوار ہوں۔ مگر اگلے کو بلکہ پچھلے کو جانے کس بات کی جلدی ہوتی ہے۔ آخر یہ لوگ کس طرف کو جانا چاہتے ہیں۔ پھر راہیں بھی اتنی تنگ ہو چکی ہیں یا یو ں کہہ لیں موٹر کار کمپنیوں نے بڑی گاڑیاں بنا کر شہروں میں بھیجنا شروع کر دی ہیں گاڑیاں ہیں کہ سڑک پر ان کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے‘ بڑی اور بیش قیمت گاڑیاں غریب ملک کے پاس کہاں سے آ گئیں۔جو یہ کسی کو پیدل بھی چلنے نہیں دیتیں۔ پھر گاڑی والے کو بندہ کیا شکایت کرے اکثر تو دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہاتھ سٹیرنگ پر ہوتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے اس نے موبائل کان سے لگا رکھا ہوتا ہے۔ہارن پہ ہارن بجتے ہیں سارا دن سڑکوں پر یہی کھیل تماشا لگا رہتا ہے۔ہارن سے مجھے سخت الرجی ہے۔ دوسرے کے ہارن کیوں سنوں۔جو بے جا او رہر جا ہوتے ہیں۔ خود میں بائیک پر سوار ہو کر ہارن بجانے سے جس قدر ممکن ہو دور بھاگتا ہوں۔ بہت ضرورت ہوئی تو ہلکا سا ہارن بجا دیا۔وہ بھی اس ضرورت کے تحت کہ اگلا اب کسی طرح بھی موٹرسائیکل کے انجن کی آواز سن کر آگے سے نہیں ہٹ رہا۔
 لڑکے بالے ہلڑ بازی سے الگ کام لیتے ہیں۔چار بندے بائیک پر سوار ہوتے ہیں۔چیخیں اور شور مچاتے ہوئے مستی کے عالم میں گذر جاتے ہیں۔پھر اس پرمزیدشرارت یہ کہ ہارن پہ ہارن بجاتے جاتے ہیں۔ وہ ہارن بھی اگر موسیقی والانہ ہو تو یہ خود ایک بٹن کو بار بار پریس کر کے ہارن کی آوازمیں موسیقی والی آن بان شامل کر لیتے ہیں۔سنا ہے کہ باہر کے ترقی یافتہ ملکوں میں بعض جگہ بغیر ضرورت کے ہارن بجانے پر سخت پابندی ہے۔پھر جرمانہ بھی ہوتا ہے۔مگر یہاں موٹر بائیک والے نے اونچی آواز والا الگ سا ہارن اپنی گاڑی میں لگا رکھا ہوتا ہے۔ چھوٹی گاڑی والے نے بڑی گاڑیوں والا ہارن لگایا ہوتا ہے۔پھر ہارن تو چھوڑ سائرن لگایا ہوتا ہے۔سائرن بھی پولیس گاڑی والا۔مگر پولیس ان کو کچھ نہیں کہتی۔اس قسم کے ہارن کو چیک کرکے ان کو اس کام سے روکنا چاہئے۔ بعض نے تو اپنی گاڑی میں ایمبولنس کا سائرن فٹ کیا ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے اب ایمبولینس آ بھی رہی ہو۔ پھر اس میں مریض ہو۔خدانہ کرے وہ تشویش ناک حالت میں ہو۔ ایسے میں شہریوں کو بھی ایمبولینس کے سائرن سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ بعض اوقات یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایمبولینس نہیں۔ پیچھے کسی شہری کی گاڑی ہے جس نے یہ سائرن بطور فیشن لگا رکھا ہے۔
جو گاڑی ہو اس میں اسی کا ہارن ہونا چاہئے۔ بعض رکشہ ڈرائیور بائیک سوار کے پاس پہنچ کر اچانک بس والا ہارن بجاتے ہیں۔ جس پر موٹر سائیکل والا ایک لمحے کو گھبرا کر ڈگمگا جاتا ہے۔ایسا نہیں کرنا چاہئے۔پھر پیچھے آنے والے خواہ مخواہ کے ہارن بجا کر شہر کے ماحول کو شور کی آلودگی سے گندا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں ٹینشن کے مارے ہوئے لوگ بہت ہیں۔ جس وجہ سے ان میں سے اکثر کے بلڈ پریشر ہائی رہتے ہیں۔ایسے میں خواہ مخواہ کے ہارن ان کے کان میں پڑیں تو جو بلڈ پریشر کا مریض نہ بھی ہو اس کو یہ مرض لاحق ہونے لگتا ہے۔کیونکہ بھلے چنگے کو یہ مریض بنا ڈالتے ہیں۔جو ہارن نہیں بجاناچاہتے یہ ہارن ان کے اعصاب پر سوار ہوجاتا ہے۔ وہ جو خاموش رہنا چاہتے ہیں۔ان کے لئے تو سڑکوں اور گلیوں میں ہارن بجانے کی پریکٹس ایک آزارہے جس کو وہ روز سہتے ہیں۔