وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں جمع کروانے سے شروع ہونے والی ”اُلٹی گنتی‘‘کا دلچسپ پہلو یہ نہیں کہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین ایسا چاہتے ہیں بلکہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ خود حکومتی اراکین بھی حزب اختلاف کی حمایت پر رضامند ہیں اور یوں حزب اختلاف کی اقلیت اکثریت سے بدل جائے گی۔ اِس بیانئے کا یہ جواب سامنے آیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے وقت جو حکومتی اراکین وزیرِاعظم کے خلاف ووٹ دیں گے‘ وہ کھڑے کھڑے اسمبلی رکنیت سے نااہل ہو جائیں گے اور بات سوفیصد درست ہے کیونکہ قانون و قواعد کے تحت اگر کوئی رکن اسمبلی آئینی معاملات پر پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرے تو نااہل ہو جاتا ہے تاہم یہ عمل کھڑے کھڑے نہیں ہوتا بلکہ اِس کا طریقہئ کار خاصا پیچیدہ ہے۔ 1973ء کے ابتدائی آئین میں کابینہ کے خلاف عدم اعتماد کے سلسلے میں قومی اسمبلی کا اختیار محدود کیا گیا تھا اور آئین میں ایسی شقیں شامل کی گئی تھیں جن کے تحت کابینہ کو برطرف کرنا عملی طور پر نہایت ہی مشکل کام تھا تاہم مارچ 1985ء میں ہونے والی آئینی ترامیم کے بعد وزیرِاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے طریقہ کار کو آسان کردیا گیا پھر جب میاں نواز شریف نے پیپلزپارٹی کی حمایت سے چودھویں آئینی ترمیم منظور کروائی تو فلور کراسنگ قریباً ناممکن کر دیا گیا لیکن دوہزاردس میں منظور کی گئی اٹھارہویں ترمیم میں اِس صورتحال کو پھر سے تبدیل کر دیا گیا۔اس سلسلے میں آئینی وضاحت موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جب کوئی پارٹی کا رکن پارٹی فیصلے سے انحراف کا مرتکب ہوگا تو پہلے پارٹی کا سربراہ اس رکن کو اظہار وجوہ کا ایک نوٹس جاری کرے گا‘ جس میں الزام بیان کیا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ کیوں نہ اس کی نااہلی کا اعلان کیا جائے‘ اندازہ یہی ہے کہ اگر پارٹی سربراہ کی جانب سے دی گئی ایک معینہ مدت کے دوران منحرف رکن جواب نہیں دیتا یا پارٹی سربراہ کو مطمئن نہیں کرتا تو اس کے بعد پارٹی سربراہ تحریری اعلان کرے گا کہ فلاں رکن پارٹی سے منحرف ہوچکا ہے لہٰذا اسے نااہل قرار دیا جائے۔ اس طرح کا اعلان سپیکر اور چیف الیکشن کمشنر کو بھیج دیا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر اس اعلان کی وصولی کے تیس دنوں کے اندر اس اعلان کی توثیق یا اس کے برعکس فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا۔ منحرف ہونے والے رکن کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف تیس دنوں کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل داخل کرنے کا حق حاصل ہے اور سپریم کورٹ (زیادہ سے زیادہ) نوے روز میں اس پر فیصلہ کرے گی۔ ذرائع کے حوالے سے یہ خبر بھی چلی ہے کہ تحریک عدم اعتماد والے دن حکومت کا ایک کے علاوہ کوئی بھی رکن اس کاروائی کا حصہ نہیں بنے گا یعنی ایوان کے اندر صرف ایک حکومتی رکن کے علاؤہ کوئی بھی رکن حکومت کی ترجمانی یا نمائندگی کرنے کے لئے موجود ہی نہیں ہوگا۔ اب یہاں ایک اور آئینی بحث چھڑ گئی ہے کہ ایوان میں شرکت سے روکنے کا آئینی اختیار کسی کو ہے یا نہیں؟تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کے مرحلے پر اراکین ایوان کو تقسیم کیا جاتا ہے۔ ووٹنگ شروع ہونے سے قبل پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں تاکہ تمام اراکین ایوان میں آجائیں۔ اراکین کے ایوان میں آنے کے بعد ایوان کے دروازے بند کروا دیئے جاتے ہیں اور اراکین کو تقسیم کر دیا جاتا ہے۔