جنوبی کوریا میں نو مارچ کو منعقد ہ صدارتی انتخابات میں سخت مقابلے کے بعد قدامت پسند اپوزیشن امیدوار یون سک یول ملک کے اگلے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ نتائج کے مطابق پیپلز پاور پارٹی کے رہنما یون سک یول نے 48.56 فیصد جبکہ برسر اقتدار جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار لی جے میونگ نے 47.83 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ میونگ نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔یول بدھ 10 مئی کو ایشیا کی چوتھی اور دنیا کی 10 ویں بڑی معیشت کے صدر کا عہدہ پانچ سال کیلئے سنبھالیں گے۔یول، جو چیف پراسیکیوٹر جنرل کی حیثیت سے سابق حکومتوں میں کافی فعال رہے تھے اور ایک بے باک شخص ہیں اور نہ صرف موجودہ صدر کے سخت نقاد ہیں بلکہ انہوں نے اپنی پارٹی کی قائد اور سابقہ صدر پارک گیون ہائے کی بدعنوانی کے الزامات میں مواخذے و برخواستگی اور قید کروانے میں کلیدی کردا رادا کیا تھا، نے اپنی جیت کو“عظیم جنوبی کوریائی عوام کی فتح”قرار دیا اور کہا کہ وہ لوگوں کی روزی روٹی پر توجہ دیں گے اور محتاجوں کو تندہی سے فلاحی خدمات فراہم کرینگے۔ انتخابات میں اس بار 14 امیدوار تھے۔ ہر امیدوار کو انتخابی نمبر دیا جاتا ہے اور اس کے تصاویر والے پوسٹرز مقامی کونسل لگاتی ہے۔ اس بار حکومتی پارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار کو پہلا اور یول کو دوسرا نمبر مختص کیا گیا تھا۔ زیادہ تر انتخابی مہم کے دوران برسر اقتدار پارٹی کے امیدوار کا پلڑا بھاری رہا مگر پھر تقریباً 10 فیصد ووٹ رکھنے والے تیسرے نمبر کے امیدوار مسٹر ہن چھول، جو میڈیکل ڈاکٹر ہیں، اپنی جماعت پیپلز پارٹی سمیت یول کے حق میں دستبردار ہوگئے جس کے بعد وہ رائے عامہ کے جائزوں میں میونگ سے آگے بڑھ گئے۔ صدارتی انتخابات میں مقابلہ بڑا سخت رہا۔ یہ بلکہ 1987ء کے بعد سے جاری آزادانہ صدارتی انتخابات میں سب سے سخت اور گرم انتخابات تھے۔ یول کی کامیابی کی وجہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں، خراب کارکردگی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی، حکومتی سکینڈلوں پر عوام کا عدم اطمینان تھا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور آمدنی میں عدم مساوات پر مایوس اور غضبناک جوان ووٹرز نے بھی یول کا ساتھ دیا۔نومنتخب صدر یول کو کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش ہونگے۔ اندرونی مشکلات میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات، شرح پیدائش میں کمی، گھروں کا مہنگا ہونا، کور ونا وائرس کی بڑھتی ہوئی شرح اور معیشت پر اس کے برے اثرات، بڑھتی ہوئی اندرونی سیاسی کشیدگی، مہنگائی، بیروزگاری، بدعنوانی، روز افزوں عدم مساوات سے نمٹنا اور عوام میں سیاستدانوں اور جمہوریت کی خراب ساکھ اور سماجی بہبود کو کم وسائل دینا شامل ہیں۔ جبکہ بیرونی چیلنجز میں اپنے پڑوسی جوہری طاقت شمالی کوریا کا خطرہ، اسکے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کی خواہش اور چین اور امریکہ کی کشیدگی کے دوران دونوں سے اچھے تعلقات رکھنے کی کوشش شامل ہیں۔ یول اندرون ملک انصاف کا جائیداد کی قیمتیں کم کرنے، انصاف کا نظام بہتر و آساں کرنے، یکساں مواقع دینے، پچیس لاکھ گھر فراہم کرنے اور بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم رکھتے ہیں جبکہ خارجہ سطح پر شمالی کوریا اور چین کے ساتھ تعلقات کی تشکیل نو کرنے کی بات کرتے ہیں تاہم ماضی کے برعکس یول کوئی پارلیمانی تجربہ نہیں رکھتے اور ان کے لئے ان چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونا آساں نہیں ہوگا۔ اگرچہ انتخابات عموماً شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام، چین، جاپان اور امریکہ سے تعلقات اور اقتصادی مسائل پر لڑے جاتے ہیں مگر ان انتخابات میں گنجا پن بھی ایک اہم موضوع رہا۔ یاد رہے جنوبی کوریا میں ہر پانچ میں سے ایک شخص گنجا ہے۔ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے ہارنے والے پاپولسٹ جے میونگ نے انتخابی مہم کے دوران گنجے پن کے شکار افراد کے علاج اور ہیئر ٹرانسپلانٹ کو قومی ہیلتھ انشورنس سکیم میں ڈالنے کا وعدہ کیا جس کے بعد دس ملین سے زائد گنجے پن کے شکار افراد نے ان کی بھرپور حمایت شروع کردی مگر وہ پھر بھی ہار گئے۔یہ انتخابات جنوبی کوریا کی حکومتی جماعت لبرل ڈیموکرٹیک پارٹی اور موجودہ صدر مون جے ان کیلئے ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے تھے جو شمالی کوریا سے ربط وتعلق پر زور دیتے رہے ہیں۔ امریکہ اور جنوبی کوریا کے پڑوسی ممالک توجہ اور دلچسپی کے ساتھ انتخابی مہم ملاحظہ کررہے تھے کیوں کہ یول شمالی کوریا بارے حکومتی پالیسی کے نقاد ہیں اور امریکہ کو کوریا کا روایتی حلیف قرار دیتے ہیں۔ ان کی کامیابی کے بعد جنوبی کوریا کی چین اور شمالی کوریا سے سردمہری اور امریکہ سے بہتر تعلقات دیکھنے میں آسکتے ہیں۔جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیڈا نے ان کی کامیابی کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ ان کی حکومت ہمسایہ ممالک کیساتھ باہمی تعلقات میں بہتری کا باعث بنے گی۔ واضح رہے موجودہ صدر مون جے کے دور میں جنوبی کوریا اور جاپان کے باہمی تعلقات انتہائی کشیدہ رہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی یول کی انتخابات میں کامیابی کا خیر مقدم کیا ہے۔ یول نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ منتخب ہونے کے بعد وہ موجودہ صدر اور ان کی انتظامیہ کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات چلائیں گے۔ انکی حریف لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو اب بھی جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی کی 295 نشستوں میں ساٹھ فیصد کی مالک ہے اس لئے امکان ہے کہ وہ مفاہمانہ پالیسی اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے۔