یہ لوگ جب سڑک کو چھیلتے ہیں۔اس پر بجلی کی بڑی چھینی اور برما استعمال کرتے ہیں۔اس وقت دل پہ چوٹ سی پڑتی ہے۔اک درد سا دل میں ہوتاہے۔اک تیر سا دل پہ چل جاتا ہے۔سرکار کی بنائی ہوئی سڑک کو آئے دن کاٹا تراشا جاتا ہے۔پھر اس پر نہ کوئی ندامت نہ پشیمانی کا اظہار تک ہوتاہے نہ کوئی لاج آتی ہے۔جس کا جی چاہا جہاں سے چاہا سڑک کو ٹوٹ پھوٹ کے حوالے کر کے خود خوش و خرم ہوتے ہیں۔یہ توجب اس شہر کو اپنا لیں۔پھر دل و جان سے اس کو عزیز سمجھیں کہ شہر میرا ہے ملک میرا ہے۔پھر اس وقت ذرا سی خراش بھی آئے تو اپنے جسم وجاں پردرد کی گہری لکیر اپنے رستے خون کے ساتھ نمودار ہو جاتی ہے۔
میں نے یہ منظر دیکھا تو سوائے سر کو جھٹکنے اور ان کے رویوں کو دل سے برا جاننے کے کوئی اورچارہ نہ تھا۔ کوئی تو آتا ہے او ربھلی چنگی خوبصورت گلی میں گیس کے بڑے پلاسٹک کے نل بچھانے کی غرض سے گلی کو کناروں سے کتر ڈالتا ہے۔پھر وہاں ملبہ کے ایک ڈھیر کی لمبی پٹی یادگارکے طور پر چھوڑ کر روانہ ہو جاتا ہے۔ یہ کیا کم احسان انہو ں نے کیا جو گیس کے لئے گلی کے حسن کو گہنا دیا۔ اب یہ جدا کہ اس میں گیس آئے نہ آئے۔ مگر گیس کے پائپ بچھا دینے سے اور پھر گھروں کے باہر گیس کے میٹر لگے ہونے سے کیا ہوتا ہے۔جو ہوتا ہے وہ ان کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے۔ یہ کہ گیس کے لئے جو یہ تڑپیں گے تو اس تڑپ میں کوئی کمی نہیں لائی جائے گی۔ہاں بچھاناہے تو پائپ لائن بچھائی جائے گی۔سڑک کے کنارے الیکٹرانک برما کے ذریعے سڑک کو چھیل رہے تھے۔ تو میں نے دیکھا کہ انہوں نے سڑک کے آر پار ایک نالی نکالی ہوئی ہے۔کلیجہ کٹ گیا۔ محسن نقوی کاشعر نوکِ زباں ہے ”ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسن۔کہ دیکھنا ہی نہیں ہم نے سوچنابھی ہے“ایک تو تکلیف دیکھنے کی اور اس پر بعد میں سوچ بچار کرنے کی زحمت۔ایسا کیوں ہوا
”کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے“سڑک کے اس پار تک جاتی ہوئی نالی میں بعض افراد ازخود اپنے سے اختیارات استعمال کرتے ہیں‘ وہ سرکاری املاک اور قومی ملکیت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جس کے بارے میں انہوں نے نہ تو کسی سے اجازت لی ہوتی ہے نہ پوچھا ہوتا ہے‘ نہ کوئی پلاننگ ہے نہ منصوبہ بندی ہے۔جو چاہتا ہے جس وقت چاہتا ہے نکل کر سڑک کو برچھوں سے کرید ڈالتا ہے۔پھر مزا یہ کہ اس بنی ہوئی نالی کو اگر گندے پانی کے لئے ہو توڈھانپا نہیں جاتا بلکہ اس میں سے گزارے ہوئے لمبے پائپ پر سیمنٹ گارا ڈال کر وہاں ہزاروں سپیڈ بریکروں میں ایک اور کا اضافہ کر دیتے ہیں۔اگلا سمجھے کہ اس سڑک پر خاص اسی جگہ کوئی حادثہ ہوا ہوگا۔ گاڑی نے کسی کو کچل دیا ہوگا۔سو اب یہاں گاڑیوں کو آہستہ جانے پرمجبور کرنے کو سپیڈ بریکر کی شکل بنا دی گئی ہے۔اگر وہ نالی پائپ ڈالنے کے لئے ہے تووہاں پائپ فٹ کر کے اوپر سیمنٹ ڈال دیتے ہیں۔جو ہفتہ بھر کے بعد گذرنے والی گاڑیوں کے بڑے ٹائروں کے تلے آ کر اکھڑ جاتی ہے۔سو اب وہاں ایک اور گڑھا ایک کھڈا بن جاتا ہے۔جس پرسے باقی کے شہری گذرتے ہیں۔
یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔اس پرسوچو تو جی چاہے گا کہ جا کر ان کو سمجھایا جائے۔مگر ان کے پاس ایک سوال کے سو سو جوابات ہوتے ہیں۔ ایک بندہ اگر آپ کی کسی بات کے بہت سے جواب دے تو اس کو سلام کرکے ایک طرف ہوجانا چاہئے۔ کیونکہ اس رویئے کا مطلب کہ وہ اپنی غلطی نہیں مانتا۔ وہ ا س پر بحث کا ڈول ڈال کر آپ کو چاروں شانے چت کرناچاہتا ہے۔ جہالت کی تعریف یہ ہے کہ جب ثبوت دیاجائے تو بھی اگلا آپ کی بات نہ مانے۔سو ہمارے ہاں اس قسم کے رویئے وافر مقدار میں ملتے ہیں۔کسی ملک میں وافر مقدار میں ہیرے جواہرات ملتے ہیں۔پھر کہیں تیل نکلتا ہے اورکہیں سونے کے ذخائر دریافت ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں اس قسم کے نادانی کے مناظر بعض مقامات پر وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ سڑک کو خراب کرناتو ان کامحبوب مشغلہ ہے۔یہ سمجھتے ہیں کہ اس سڑک پر بناہوا گھر ان کا اپنا ہے اورگھر کے باہر یہ سڑک حکومت کی ہے۔حالانکہ وہ سڑک وہ رستہ وہ مٹی بھی ان ہی کی ہوتی ہے۔گھر آپ اکیلے کاہے۔ سو ہوگامگر گھر کے باہر کی سڑک آپ کی بھی ہے اور دوسروں کی بھی ہے۔