ملکی اور بین الاقوامی حالات

اس وقت ملک میں سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے اور تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے دونوں طرف تیاریاں زوروں پرہیں۔ ایسے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ ہم نے تحریک عدم اعتماد کیلئے قومی اسمبلی اجلاس سے 7 روز قبل پارلیمنٹ، لاجز کو ایف سی اور رینجرز کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ امن و امان کی کوئی شکایت نہ رہے، کسی سیاسی جماعت کے رضاکاروں کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، حکومت 245 کے تحت فوج بلانے کا بھی اختیار رکھتی ہے لیکن اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ امن و امان کو یقینی بنانے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں یہ گنجائش ہی نہیں کہ کسی پارٹی کے رضا کار یہ ذمہ داری سنبھالیں۔دو طرفہ تلخ بیانات کے حوالے سے ان کا یہ کہنا بھی درست ہے  کہ ہمیں صلح صفائی  اور ٹھنڈے پروگرام کی طرف جانا چاہئے۔ 
کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار وفاقی وزیر اطلاعات  فواد چوہدری نے بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت اوراپوزیشن میں اتنی تقسیم نہ ہو کہ گفتگو ہی مشکل ہوجائے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ  اپوزیشن کی بغیر سوچے سمجھے عدم اعتماد کی تحریک نے سیاست میں تلخیاں پیدا کر دیں۔جمہوریت اتنی انتہائی  تقسیم کا نظام نہیں ہے اور  جمہوریت میں کم از کم اتفاق رائے پر نظام استوار ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اتنی تقسیم نہ ہو کہ کسی بھی سبب گفتگو ہی مشکل ہو جائے۔ لڑنا مشکل نہیں بعد میں صلح مشکل ہوتی ہے،د یکھا جائے حقیقت یہ ہے کہ سیاست نام ہی لچک اور صلح وصفائی سے کام لینے کا ہے۔کسی بھی وقت مخالفین پر یکسر دروازے بند نہیں کئے جاتے۔اس وقت جو صورتحال ہے اسے جمہوری معاشرے میں ہر گز کوئی عجیب واقعہ نہیں سمجھا جاتا کہ عدم اعتماد بھی جمہوریت کا حصہ ہے اور اس کا مقابلہ کرنا بھی اس لئے امید تو یہی کی جاسکتی ہے کہ دونوں طرف تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا جائیگا اور حالات کو اس نہج پر پہنچنے سے روکنا ہوگا کہ جہاں بات چیت کی گنجائش ہی ختم ہوجاتی ہے۔ 
گزرے روز پاکستان پاک فضائیہ میں چین کے جدید ترین طیاروں کی شمولیت کی جو تقریب منعقد ہوئی وہ اس حوالے سے اہم اور یادگار ہے کہ ان طیاروں سے وطن عزیز کادفاع ناقابل تسخیر بنانے میں مددمل رہی ہے۔ اس ضمن میں چین کاکردار یقینا قابل ستائش ہے جو پاکستان کے ساتھ اپنی دیرینہ دوستی کے تقاضوں کو نبھانے میں تیزی دکھا رہا ہے اور جہاں معاشی بحالی کے منصوبوں میں پاکستان کا ہاتھ بٹا رہا ہے وہاں دفاعی شعبے میں بھی بھر پور مدد فراہم کر رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ چین کی صورت میں پاکستان کو ایک بااعتماد دوست ملا ہے جس نے ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دیا ہے۔ اس کے برعکس ماضی میں ہم نے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کا تلخ تجربہ کیا جس کا نتیجہ نقصان کی صورت میں ہی سامنے آیا۔  یہ اب جو روس اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی شروعات ہو چکی ہیں یہ بہت احسن فیصلہ ہے جس کے دور رس اثرات سامنے آئیں گے۔
اب کچھ تذکرہ عالمی حالات کا ہوجائے جہاں روس نے یوکرائن میں حملے تیز کردئیے ہیں اور دارلحکومت کی سڑکوں پر لڑائی چھڑنے کی خبریں آرہی ہیں۔ تاہم جو معاملہ اس وقت قابل ذکر ہے وہ یورپی ممالک کا یوکرین سے نقل مکانی کرنے والے افراد کیلئے سرحدات کھولنے اور ان کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کرنے میں تیزی دکھانا ہے۔ اس سے قبل شام میں بحران پیدا ہوا تو تارکین وطن کو جس طرح یورپی ممالک نے ٹھکرایا وہ کوئی بھول جانے والی بات نہیں۔ سینکڑوں لوگ سمندر برد ہوگئے تاہم انہیں پناہ نہیں ملی۔جنگ اور بحران سے مجبور ہو کر نقل مکانی کرنے والے افراد کے حوالے سے یورپ کا دوغلا پن اس وقت بے نقاب ہوگیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور نیٹو ممالک پر اعتماد کرنے اور ان کیلئے دشمنی مول لینے کے نقصانات بھی دنیا پرواضح ہوگئے ہیں کہ کس طرح یوکرین نے اپنے قریبی پڑوسی ملک روس سے نیٹو اور امریکہ کے کہنے پر دشمنی مول لی اور اب جب یوکرین پر روسی حملے جاری ہیں تو نیٹو اور امریکہ نے ہری جھنڈی دکھائی اور یوکرین کو روس کا مقابلہ کرنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا ہے۔
امریکی صدر نے ایک بار پھر کھل کر کہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے  اور وہ صرف اپنے نیٹو ممالک کی حفاظت پر توجہ مرکوز رکھیں گے دوسری طرف روس کو جھکانے کیلئے اقتصادی پابندیاں اس وقت غیر موثر نظر آرہی ہیں کہ اس سے یوکرین پر روسی حملہ رک نہیں گیا ہے بلکہ اس میں وقت گزرنے کے ساتھ تیزی آئی ہے۔ لگتا یہ ہے کہ روس نے پہلے ہی اس حملے کے نتائج پر غور کیا تھا اور اس نے اپنے آپ کو ہر طرح کے حالات کیلئے تیارکیا تھا۔