دبستان سیاست: بول چال

حزب اختلاف کی طرف سے وزیراعظم کیلئے تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کے بعد حکومت اور حزب اختلاف اپنی اپنی کامیابی کے دعوؤں کے ساتھ ساتھ اپنے حامی ارکان کی تعداد میں اضافہ کرنے کی کوششوں میں تو مصروف ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ لہجے میں تلخی کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے فریقین میں سیاست کے میدان میں صحت مند مقابلے کے برعکس ایک بدمزہ سی مہم کا آغاز ہو گیا ہے جس نے ملکی سیاسی ماحول کو مکدر بنا دیا ہے۔ لیکن اِس مرتبہ اِس کی شکایت خود سیاست دانوں کے منہ سے سننے میں آ رہی ہے جو یقینا اِن کے مناصب کے ہرگز ہرگز شایان شان نہیں۔بنیادی بات یہ ہے کہ جمہوریت میں برسراقتدار جماعت اور حزب مخالف کی جماعتوں میں نظریاتی اختلافات ہوتے ہیں بلکہ ہر جماعت کا نظریہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں  معاملہ کچھ اور ہے یہاں ہمیں مختلف النظریات جماعتیں جو انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف اُمیدوار کھڑا کرتی ہیں لیکن انتخابات کے بعد مخلوط حکومت کے قیام کیلئے ایک دوسرے قریب آ جاتی ہیں۔ 
سیاسی جماعتوں کی حکمت عملیوں اور ترجیحات پر مبنی پالیسیوں میں اختلافات ہونا بھی اچنبھے کی بات نہیں۔ تمام جمہوری ممالک میں اس قسم کے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں جب حکمران جماعت اور اس کے مخالفین میں بحث و مباحثہ اور گرما گرمی ہوتی ہے۔ اسمبلی کا پلیٹ فارم ہو یا عوامی جلسہ‘ ہر دو جگہوں پر متحارب گروپ ایک دوسرے کے خلاف تقاریر کرتے اور اپنے اپنے مؤقف کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جمہوری سیاست کا حسن ہے اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوتا اور معاملات اسی طرح آگے بڑھتے رہتے ہیں لیکن یہ سب کچھ ایک حد میں رہتا ہے۔یہ درست ہے کہ بعض ممالک میں اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران حکومتی اور مخالف گروپوں میں سرپٹھول کے واقعات بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ خود ہمارے ہاں بھی اکثر اسمبلی اجلاسوں میں مسودہ ہائے قوانین کو پھاڑنے‘ سپیکر کے ڈائس کی طرف اچھالنے اور بجٹ کی بھاری بھرکم کتابوں کو ایک دوسرے کی طرف پھینکنے ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں لہٰذا یہ بڑی بات نہیں اور نہ کوئی ایسا معاملہ ہے کہ جس پر حیرت کا اظہار کیا جا سکے تاہم یہ ناپسندیدہ عمل یا ردعمل ارکان اسمبلی تک ہی محدود رہتا ہے۔
سیاسی رہنماؤں کے درمیان ”جواب آں غزل“ کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے‘ خدا جانے وہ کہاں جا کر رکے گا کیونکہ اِس میں ہر دن تیزی آ رہی ہے اور خدشہ موجود ہے کہ یہ رجحان اُن کے وفادار کارکنوں میں بھی در آئے گا اور اس قسم کی صورتحال جب پورے ملک اور معاشرے میں پھیل جائے تو وہ نفرت کو جنم دیتی ہے جس کی آگ سے خشک و تر کا بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ قوم اس سے پہلے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز میں اسی قسم کے اظہار رائے کے مناظر دیکھ چکی ہے اور اِس کا خمیازہ بھی قوم کو بھگتنا پڑا تھا۔ قومی سیاسی قائدین کو بہرحال اپنی اپنی اداؤں پر غور کرنا چاہئے اور ایک دوسرے کی مخالفت میں اس حد تک آگے نہ جائیں کہ قومی مفاد میں اختلافات ذاتی دشمنیوں میں بدل جائیں اور جس نظام کے بل بوتے پر وہ یہ سیاست کر رہیہیں‘ خدانخواستہ وہی عمارت ہی کہیں زمین بوس نہ ہو جائے جس کے بعد ماسوائے پچھتاوہ کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا یقینا اِس نازک صورتحال پر حکمراں جماعت اور حزب اختلاف کی قیادت حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے اور اپنے اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد جاری رکھیں گی۔ سیاسی قائدین ایک دوسرے کی ذات کو نشانہ بنانے سے گریز کریں۔ اخلاق کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں اور شائستگی و تہذیب سے اپنا مافی الضمیر بیان کریں تو اسی میں نہ صرف اُن کی بہتری ہے بلکہ جمہوری نظام کی بقا کا راز بھی ’باہمی احترام‘ پر مبنی ایک مہذب و باضمیر سیاست میں مضمر ہے۔