توسوال اُبھرتا ہے

آج بھی کئی شادیاں شیڈول میں ہیں۔کہیں بارات ہے اور کہیں ولیمہ ہے۔پھر کہیں بارات اور ولیمہ ایک ہی دن ہے۔آج کا دن شادیوں میں گزرنا ہے۔کیونکہ چاروں اور جیسے شادی کے نقارے بج رہے ہوں۔ خواہ وہ صدر کا چوک ہو یا جی ٹی روڈ کی نہر والی موڑ ہو۔ڈھول والے کھڑے ہیں۔ پھر آپ ہی کے انتظارمیں کھڑے ہیں۔ انھوں نے بھی وہی جگہ ڈھونڈ نکالی ہے جہاں ان کو کھڑے یا بیٹھے ساتھ ساتھ ہلکی تھاپ پر ڈھول بجانے میں فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔یہ جگہیں ایسی ہیں جہاں چار اطراف میں شادی ہال ہیں۔ جہاں آئے روز باراتیں او رولیمے نپٹائے جاتے ہیں۔لوگ آتے ہیں ناچتے گاتے ہیں کھاتے اور چلے جاتے ہیں۔ اس آنے جانے میں ان کو یہ ڈھول والے اچھی طرح نظر آتے ہیں بلکہ ان کے ڈھول پیٹنے کی ہلکی پھلکی آواز بھی کانوں کے پردوں پر دستک دیتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔شادی ہالوں میں لائیٹیں ہیں اور شہریوں کا آنا جانا ہے۔جہاں کھانا ہے اورکسی نہ کسی نے تو کھانا ہے۔مگر وہ لوگ جو جوانی کے دلکش او ررعنائی والے فیز سے گزر کر آگے چلے گئے ہیں۔
 وہ اب جوانی کے زمانے کے کھانوں کی لذت سے آشنائی کرنا چاہتے ہیں۔مگر ان کو اپنی صحت اجازت نہیں دیتی۔کہیں گول میز کانفرنس ہو۔ یوں شادی ہالوں میں کھانا تقیسم ہوتے وقت عزیز رشتہ دار دوست یار آپس میں محوِ گفتگو ہوتے ہیں۔ کھانے کے انتظار میں یہ لوگ ذرا تفصیل میں بھی چلے جاتے ہیں کیونکہ یہ سرسری قصہ نہیں۔اس میں ذرا تفصیل میں جانا تو پڑتا ہے کیونکہ خاندان کے لوگ آپس میں ملیں تو کسی تیسرے کے بارے میں جو وہاں سے غائب ہو اس کا تذکرہ نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا۔یہ ہمارا مشغلہ ہے ایک کو زیرِ بحث لاتے ہیں او رکبھی دوسرے کو۔ہر چند کہ تیسرا بندہ پہلے دو کی طرح زیرِ گفتگو نہ آنا چاہتا ہومگر اس کی کیا مجال جو ایسا کر پائے۔یہ تو ملک کی کسی بھی شخصیت کو اپنی بات چیت میں گفت شنید کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔لیکن حیرانی اس وقت ہوتی ہے جب کھانا کھا لیا جاتا ہے۔اس وقت کسی ایک کو بھی یہ تاب نہیں ہوتی کہ کچھ ذرا رک جائے اور اس بحث کو جاری رکھے۔ہر ایک کو جلدی ہوتی ہے اور ہر ایک نے دوڑنا بھاگنا ہوتاہے۔پھر کوئی نہیں ٹھہرتا کہ ان کے درمیان چل پڑنے والی گفتگو کو مزید تیز تر کر سکے ۔سب کچھ وہیں سٹاپ ہو جاتا ہے۔بلکہ جس وقت ویٹروں کے درمیان کھانے کی تقسیم کا کام شروع ہو جاتا ہے تو اس وقت سب اراکینِ گول میز کانفرنس اپنی اپنی تیاری اپنے ذہن میں شروع کر دیتے ہیں۔کوئی تو دل کا بیمار ہوتا ہے کوئی شوگر کی کڑواہٹ میں مبتلا ہو تا ہے۔
کسی کو معدہ کے خلجان نے کہیں کا نہیں چھوڑ رکھا ہوتا۔ انھوں نے کھانا تو ہوگامگر احتیاط کے ساتھ کیونکہ منہ کا ذائقہ تو پیٹ کا براہِ راست دشمن ہوتا ہے۔پھر ہماری عمر کے لوگ تو کم بختی کو اپنے ہی دانتوں سے کرید کر اپنے سر لے لیتے ہیں۔پھر کون ہے جو اس موقع پر صبر کا مظاہرہ کرے وہ اگر اپنی بیماری کے کارن صبر کر بھی لے تو کیاکرلے گا۔اس نے اس موقع کے صبر کے انجام کے ہاتھوں گھر کوبھوکا ہی جانا ہوگا کیونکہ یہاں تو انواع و اقسام کے کھانے ہیں مگر سب کے سب جیسے صحت مند اور غیر بیمار لوگوں کیلئے ہوں۔ کیونکہ کوئی نہ کوئی آئٹم کسی نہ کسی پر منع ہوتا ہے کہ وہ نہ کھائے ورنہ جان سے جائے۔کسی کے ڈاکٹر نے فیرنی سے پرہیز بتلایا ہوتا ہے۔مگر فیرنی سے پرہیز کا کہا ہے حلوہ سے پرہیز کی توبات ہی نہیں ہوئی۔سو ان کو حلوہ کھانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی پھر کیا کریں اگر میٹھے کو ہاتھ نہیں لگانا تو شادی ہی میں کیوں اتنی دور سے چل کر آئے۔
اب اگر حاضری ہی دینا تھی تو دوایک چمچ کھالینے میں کیا حرج ہے۔یہ الگ بات کہ یہ دو ایک چمچ ایک دو نہیں رہتے اور گنتی میں ان کا شمار یاد نہیں رہتا۔اگر میٹھے سے پرہیز ہے تو شوق سے ہو اچھی بات ہے۔گوشت نہیں کھانا خواہ جس قسم کا ہو اور فیرنی نہیں کھانی چاہے جس رنگ کی ہو او رجیلی بھی تو نہیں کھانی۔تو سوال اُبھرتا ہے کہ پھر کیا کھایا جائے۔جی کڑا کر کے آ گئے کیونکہ آنا ضروری تھا۔مگر اب پرہیز سے کام لینا تو ضروری نہیں۔بندہ کی شادی روز روز تو نہیں ہوگی۔ زندگی میں ایک ہی بار ہوگی  سو ایسے میں خوشی کے کارن کچھ کھاپی لینے میں کیا برائی ہے۔