انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز پشاور کے زیر اہتمام افغانستان کا نیا منظر نامہ، خدشات اور امکانات کے موضوع پر ادارہ تعلیم و تحقیق جامعہ پشاور میں منعقدہ ایک روزہ سیمینار سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کوچین اور روس سمیت دیگر دوست ممالک کو اعتماد میں لیکر بلا توقف طالبان حکومت تسلیم کرلینا چاہئے۔متذکرہ سیمینار ایک ایسے وقت اور موضوع پرمنعقد ہوا جس کے متعلق ہر ذی شعور پاکستانی نہ صرف پریشان ہے بلکہ پاک افغان تعلقات کی پیچیدگیوں کومد نظر رکھتے ہوئے موجودہ حالات میں اس کی اہمیت بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ پاک افغان تعلقات کی نزاکتوں کومد نظر رکھتے ہوئے ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل سرحد اور مشترکہ تاریخ،مذہب، ثقافت اور اقتصادی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے دور رہنا دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے،ویسے بھی پاکستان اور افغانستان چونکہ ہمسائیگی کے اٹوٹ رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں اور ان دونوں برادر ممالک کا دکھ سکھ شریک ہے اوراب جب طالبان بھی برملا اس بات کااظہار کرچکے ہیں کہ وہ نوے کے عشرے کے بر عکس دنیا کے ساتھ چلنے کیلئے آمادہ ہیں اور انکی جانب سے اس حوالے سے ان کے روئیوں میں لچک کا مظاہرہ بھی نظر آ رہا ہے تو پھر ان پر اعتماد نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
زیرنظر سیمینار سے خطاب میں پاکستان کے دو کہنہ مشق سابق سفیروں اور دیگر ماہرین کایہ استدلال سوفیصد درست اور لائق توجہ ہے کہ پاکستان کو 23،22 مارچ کو اسلامی کانفرنس تنظیم کے وزراء خارجہ کے اسلام آ باد میں ہونے والے اجلاس میں امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کروانے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ سیمینار سے خطاب میں معروف صحافی اور افغان امور کے ماہر طاہر خان کے مطابق افغانستان کے ساتھ انسانی ہمدردی کے حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے پاکستان اب تک غیرسرکاری طورپر 2167 ملین روپے کا 580 ٹرکوں پر مشتمل امداد ی سامان افغان عوام کو پہنچاچکا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔دوسری جانب یہ بات قابل اطمینان ہے کہ گزشتہ چھ ماہ میں جب سے طالبان برسراقتدار آئے ہیں تب سے پورے افغانستان سے نہ تو کسی کے بھوک سے اور نہ ہی ادویات نہ ہونے کے باعث مرنے کی کوئی خبر آئی ہے۔ افغان عوام کو درپیش کئی چیلنجز میں سے ایک اہم چیلنج افغانستان کا معاشی بحران ہے جس کا براہ راست ذمہ دار امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ہیں جنہوں نے نہ صرف امارت اسلامیہ افغانستان پراقتصادی پابندیاں عائد کررکھی ہیں بلکہ افغانستان کے نو بلین ڈالر اثاثے منجمدکر کے انہیں نائن الیون کے متاثرین میں تقسیم کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔یاد رہے کہ طالبان کے ٹیک اوور کے بعدسے جب سے امریکہ نے طالبان حکومت پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں تب سے پاکستان اور افغانستان کی دو طرفہ تجارت جو2010کے افغان ٹرانزٹ ٹریڈمعاہدے کی وجہ سے پہلے ہی شدید دباؤ کا شکارتھی مزید خطرات سے دوچار ہوگئی ہے۔
لہٰذا توقع ہے کہ دوطرفہ تجارت کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے مشترکہ چیمبر سے مشاور ت کرکے دونوں ممالک کیلئے قابل قبول اور قابل عمل پالیسی وضع کی جائے گی۔ واضح رہے کہ سیمینار کے دو سیشن ہوئے پہلے سیشن کی صدارت ادارہ تعلیم وتحقیق کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ارباب خان آفریدی نے کی جبکہ پہلے سیشن کے مقررین میں افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر سید محمد ابرار حسین،طالبان کے سابق دور حکومت کے چیف جسٹس مولانا محمد سعید ہاشمی،ڈائریکٹر پاکستان سٹڈی سنٹر جامعہ پشاورپروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، پاک افغان فورم کے چیئر مین حبیب اللہ خان خٹک،معروف صحافی اور افغان امور کے ماہر طاہر خان،پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے نائب صدر ضیاء الحق سرحدی اورآئی آر ایس کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمان قریشی شامل تھے جب کہ دوسرے سیشن کی صدارت ڈین آف سوشل سائنسز جامعہ پشاور پروفیسر ڈاکٹر زاہد انور نے کی اور اس سیشن سے بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبد الباسط، افغان ہائی پیس کونسل کے سابق ترجمان اور سابق ممبر اولسی جرگہ مولانا محمد شہزادہ، سابق افغان حکومت کے ڈپٹی وزیر تعلیم ڈاکٹر عطاء اللہ واحد یار،معروف صحافی اور تجزیہ کار محمود جان بابر اور آئی آرایس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اقبال خلیل نے بھی خطاب کیا۔