وزیر اعظم عمران خان کی یہ بات پتھر کی لکیر ہے کہ تبدیلی اور اصلاح کا راستہ کبھی بھی آسان نہیں ہوتا، ملک میں کرپشن کو برا نہیں سمجھا جاتا اور یہ کہ ان کا مقابلہ مافیاز سے ہے ان کی اس بات میں بھی کافی وزن ہے کہ مغرب میں جہاں قانون کی پاسداری کی جاتی ہے وہاں کوئی سرکاری خزانہ چوری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، ان کا یہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ آج پاکستان میں بچوں کو پیغمبر اسلامؐ کی سیرت اور تعلیمات سے روشناس کرانے کی اور غلط اور صحیح میں امتیاز سکھانے کی سخت ضرورت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک میں اچھے سائنس دانوں کی کمی نہیں زندگی کے ہر شعبے میں پروفیشنلز کی کمی نہیں ہاں اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ اخلاقیات اورقانون کی پاسداری ہے کوئی بھی معاشرہ ہو اس میں اخلاقیات کے قیام اور اس کے فروغ کیلئے جزا و سزا کا عمل جاری رہنا ضروری ہے۔ چونکہ ماضی میں اس طرف ارباب بست و کشاد نے کماحقہ تو جہ نہیں دی اسی وجہ سے آج ملک مسائل کاشکار ہے۔
چین نے زندگی کے ہر شعبے میں جو حیرت انگیز ترقی کی ہے اس کی مثالیں لوگ دیتے ہوئے نہیں تھکتے غور طلب بات یہ ہے کہ آخر چین کے حکمرانوں کے پاس کون سا الہ دین کا چراغ تھاجس کو رگڑنے کے بعد وہ زندگی کے ہر شعبے میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ آج دنیا کا ہر ملک اسے رشک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح آ خر وہ کونسی سیاسی روایات ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر یورپ کے کئی ممالک نے اپنے عوام کو زندگی کی ہر بنیادی ضرورت فراہم کر دی ہے۔ ان اچھی روایات کو اپنانے میں آ خر کیا قباحت تھی پر ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارے اکثر حکمرانوں نے کل کا نہیں سوچا انہوں نے بس اقتدار میں کسی نہ کسی طریقے سے اپنا وقت گزارنے کیلئے شارٹ ٹرم منصوبے بنائے کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اگر ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے حوالے سے وسائل کا بندوبست نہیں کیا گیا تو یہ ملک بہت جلدخوراک اور توانائی کی کمی کا شکار ہو سکتا ہے کسی نے بھی آئندہ کے بیس تیس سالوں کے عرصے کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ تو بروقت پانی سے بجلی بنانے کے ڈیمز بنانے پر زور دیا اور صحت کے شعبے کو خاطر خواہ توجہ دی یہ تو بھلا ہو عمران خان کا کہ ان کو یہ خیال تو آ یا کہ کیوں نہ اس ملک کے ہر باسی کے واسطے مفت طبی معالجے کا بندوبست ہو جو کام انگلستان نے نیشنل ہیلتھ سروس کے ذریعے 1940 میں شروع کیا وہ ہم نے 2021 میں شروع کیا جو لوگ دن رات انگلستان میں رائج پارلیمانی نظام حکومت کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں وہ نہ جانے یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب تک ہم ان سیاسی روایات کو نہیں اپناتے کہ جو انگلستان کی پارلیمانی جمہوریت کا ضروری جز ہیں خالی خولی پارلیمانی جمہوریت کا نام لینے سے بات نہیں بن سکتی اس بات میں کوئی دو آ را نہیں ہیں کہ جو لوگ ہمارے پالیمارنی اداروں کے رکن منتخب ہوتے آ رہے ہیں ان پر جمہوریت کو مستحکم کرنے کی بھاری بھرکم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
اگلے روذ امریکی صدر جوبائیڈن نے جب نیٹو افواج کو یوکرین نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تو ان کے پیش نظرویت نام اور افغانستان کی مثالیں موجود تھیں کہ جہاں ماضی قریب میں امریکہ نے جب فوجی مداخلت کی تھی تواسے ان دونوں محاذوں پر منہ کی کھانی پڑی تھی اور بڑے بے آ بروہوکر وہاں سے نکلناپڑا تھا اس حقیقت کے تناظر میں امریکی صدر کا مندرجہ بالا فیصلہ کافی دانشمندانہ نظر آ تا ہے پیوٹن کو اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ یوکرین کا صدر اس قدر ثابت قدم ثابت ہوگا۔ 2022 کا سال دنیا کیلئے معاشی طور پر بڑا مشکل سال ثابت ہوا ہے پہلے تو کورونا نے دنیا کی معیشتوں کا کچومر نکالا اور امیر ترین ممالک کی بھی چیخیں نکل گئیں اس کے بعد یوکرین کی جنگ نے جو رہی سہی کسرتھی وہ بھی نکال دی کئی ممالک کے عوام روٹی دال کے محتاج ہو گئے ہیں۔دوسری طرف نیوکلیئر ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور ایک سے زیادہ ممالک کے پاس ایٹم بموں کی موجودگی نسل انسانی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے کافی ہیں۔ پر کئی دانشوروں کے خیال میں ان ہتھیاروں کی کئی ممالک کے پاس موجودگی نے ایک لحاظ سے کئی ممالک کو عالمگیر جنگ شروع کرنے سے روک بھی رکھا ہے کیونکہ کئی ممالک اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنگ کی صورت میں اگر وہ کسی دشمن ملک پر یہ بم گرائیں گے تو جواب میں ان کو بھی اس کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔