بھارت کی مداخلت اور سرحدوں پر کشیدگی برقرار رکھنے کی حکمت ِعملی کا پاکستان نے ہمیشہ ’امن کے پختہ ارادے‘ اور ’صبر و برداشت‘ کے مظاہرے سے جواب دیا ہے اور یہ بات دنیا جانتی ہے کہ بھارت کے ساتھ 3 ہزار 323 کلومیٹر طویل پاکستان کی سرحد کا کوئی ایک بھی حصہ (ریجن) بھی ایسا نہیں جسے پرامن قرار دیا جا سکے لیکن اِس کے باوجود پاکستان کے پختہ ردعمل کی بدولت خطے میں امن قائم ہے اور بھارت کی اشتعال انگیزی کے باوجود پاکستان کی پرامن حکمت عملی میں ایسی کوئی تبدیل رونما نہیں ہوئی‘ جس سے خطے کا امن خطرے میں قرار دیا جا سکے۔ بھارت نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک حادثہ تھا لیکن یہ اعتراف ان جائز خدشات اور سوالات کو دور کرنے کیلئے کافی نہیں جو پوچھے جا سکتے ہیں۔ سب سے بنیادی سوال بھارت کی فوجی صلاحیت پر اُٹھتا ہے کہ میزائل جیسی حساس ٹیکنالوجی کو سنبھالنے میں بھارت کی مہارت ناکافی ہے اور یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔
دنیا بھر میں ہتھیاروں پر نظر رکھی جاتی ہے اور ہتھیاروں کے نظاموں کی حفاظت کو خاص اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ اِن کو رکھنا کسی بھی طرح معمولی بات نہیں ہوتی۔ میزائل کسی ایک ملک سے دوسرے یا دور دراز کے ممالک تک سفر کر سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِن کا شمار انتہائی خطرناک ہتھیاروں میں ہوتا ہے‘ جن کی وجہ سے ممالک کے درمیان تنازعات جنگ کی صورت اختیار کر سکتے ہیں اور ایسی صورت میں صرف دو متعلقہ ممالک ہی نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ نو مارچ کے روز ضلع خانیوال کے گاؤں میاں چنوں کی حدود میں گرنے والا بھارتی میزائل تشویش اور تجسس کا موضوع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے پاکستان کے اندر ایک سوچوبیس کلومیٹر کا فاصلہ چار منٹ سے بھی کم وقت میں طے کیا‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اس میں کچھ مہلک ہتھیار نصب کئے گئے ہوتے تو اس سے بڑے پیمانے پر ہلاکت اور تباہی کا امکان موجود تھا۔
میزائل یا دیگر آلات میں تکنیکی خرابی ہو سکتی ہے لیکن اِس خرابی سے کسی ہتھیار کا پڑوسی ملک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنا اور پھر اس ملک میں گرنا آسانی سے نظرانداز کرنے والے امور نہیں ہیں۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان جذبات میں آتے ہوئے بھارت کے میزائل کا جواب دیتا تو اِس سے کس قسم کی صورتحال پیدا ہوتی۔ جب تجرباتی فائرنگ یا فائرنگ ہوتی ہے تو میزبان ملک کو تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں تاکہ دوسرے ممالک کی حدود کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اگرچہ بھارت کی فوجی و سیاسی قیادت نے اِس واقعے افسوس کا اظہار کیا ہے لیکن اس غلطی کی تفصیلی تحقیقات ہونی چاہیئں تاکہ مستقبل میں اِس قسم کے حادثات یا واقعات کو روکا جا سکے۔ ضروری یہ بھی تھا کہ بھارت فوراً اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے صورتحال کی وضاحت کرتا لیکن پراسرار وجوہات کی بنا پر بھارت نے میزائل کے حادثے سفر اور پاکستان میں گرنے کے اڑتالیس گھنٹے بعد اپنی غلطی قبول کی۔ سوچ بچار کیلئے دو دن سوچنا کافی سے زیادہ وقت ہے اور اگر اِس وقت میں پاکستان نے صبروتحمل کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو آج صورتحال قطعی مختلف ہو سکتی تھی۔ بھارت کو اِس حادثے کے حوالے سے بھی سوچنا چاہئے کہ مذکورہ میزائل کسی مسافر طیارے سے بھی ٹکرا سکتا تھا کیونکہ اِس کی انتہائی تیز رفتار اُس بین الاقوامی اور قومی ’ہوائی راہداریوں‘ کے خطرناک حد تک قریب تھی‘ جو انتہائی مصروف رہتے ہیں اور یہ فضائی حدود پاکستان کی شہری آبادی سے بھی زیادہ دور نہیں۔
بھارت اگر ذمہ دار ملک ہوتا تو وہ اپنی غلطی سے فوراً پاکستان کو مطلع کرتا تاکہ اِس حادثے سے غلط فہمیاں جنم نہ لیتیں۔ دو ہمسایہ اور جوہری صلاحیت رکھنے والے ممالک‘ جن کے آپسی تعلقات خاطرخواہ دوستانہ (مثالی) بھی نہیں اگر اِن کے درمیان اِس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو اِن کی روک تھام ضروری ہے۔ اطلاعات ہیں کہ حال ہی میں بھارت سے تابکار مادے (یورینیم) کی چوری ہوئی ہے اور پاکستان اِس بارے میں پہلے ہی تشویش کا شکار ہے کہ اگر جوہری تابکار مادہ اِس طرح چوری ہو سکتا ہے اِس سے عیاں ہوتا ہے کہ بھارت اپنے جوہری اثاثوں اور ہتھیاروں کے ذخیرے کی حفاظت کرنے میں خاطرخواہ سنجیدگی سے کام نہیں لے رہا۔ بھارت کی جانب سے میزائل کی حادثاتی اُڑان کے بارے میں مشترکہ تحقیقات ہونی چاہیئں اور دونوں ممالک کے عسکری ماہرین پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم کو اُن سبھی پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہئے جن کی وجہ سے یہ حادثہ رونما ہوا۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کی غلطیوں سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ کسی غلطی پر صرف افسوس کا اظہار کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ دانشمندی اِس میں ہے کہ غلطی کے محرکات اور وجوہات کا سدباب کیا جائے۔