عدم اعتماد کا مرحلہ آتا ہے یا پھر ٹلتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم اتنا ضرور ہے کہ یہ پارلیمانی جمہوری اداروں کی تاریخ کا اہم حصہ ہے اور اسے منفی سرگرمی نہیں سمجھنا چاہئے۔ ہمارے ہاں اس سے قبل بھی کئی مرتبہ یہ عمل دہرایا گیا ہے۔وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی باتیں تو بہت پہلے سے ہو رہی تھیں تاہم اب یہ تحریک پیش کر دی گئی۔ اس دوران ایسی خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ اس کے بعد سینٹ چیئرمین اور سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک لانے کی منصوبہ بندی ہور ہی ہے۔اگر چہ موجودہ سپیکر نے کئی مواقع پر اپنی غیرجانبداری کو عملا ً ثابت کیا ہے تاہم پھر بھی اگر اپوزیشن کو اس میں شک ہے تویہ کوئی انہونی بات نہیں کیونکہ ہماری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہماری قومی اسمبلی کے بہت کم ایسے سپیکر گزرے ہیں کہ جن کی غیر جانب داری پر اپوزیشن جماعتوں نے انگلی نہ اٹھائی ہو۔ نامور سیاست دان ہماری قومی اسمبلی کے مختلف ادوار میں سپیکر رہے ہیں جن میں عبدالوہاب خان‘ فاروق خان لغاری‘ گوہر ایوب‘ مولوی تمیزالدین وغیرہ شامل ہیں۔ چونکہ قومی اسمبلی کے سپیکر کا تعلق حکمران سیاسی جماعت سے ہوتاہے اس کی سیاسی وفاداریوں کو اپوزیشن والے ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اگر ہماری یاداشت ہم کو دھوکہ نہیں دے رہی تو ہم اس ضمن میں 1970 کے عام انتخابات کا ذکر کر دیں جب ایک مشہور سیاسی شخصیت کو اس وقت کی حکمران سیاسی پارٹی نے قومی اسمبلی کا سپیکر نامزد کیا تو سپیکر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد انہو ں نے جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا
کہ انہوں نے یہ کہہ کر اپنی سیاسی پارٹی کی ممبرشپ سے استعفیٰ دے دیا کہ چونکہ اب وہ پوری قومی اسمبلی کے نمائندے ہیں اس لئے غیر جانبداری کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اس وقت تک اس سیاسی پارٹی کے رکن نہ رہیں کہ جب تک ملک میں اس کی حکومت قائم رہتی ہے ان کے اس اقدام کو ملک کے سیاسی مبصرین نے از حد پسند کیا تھا پر افسوس کہ بعد میں اس اچھی روایت کو آ گے کسی نے نہیں بڑھایا گیا حالانکہ اگر اس ملک کے ارباب بست و کشاد اگر صدق دل سے چاہتے تو کسی ترمیم کے ذریعہ اس روایت کو ملک کے دستور کا حصہ بنا سکتے تھے اب بھی اگر سیاسی پارٹیاں اس ملک میں پارلیمانی جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنا چاہتی ہیں تو اس روایت کو قانون سازی کے ذریعے ملک کے دستور کا حصہ بنا سکتی ہیں۔دوسری طرف پاکستان نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں خواتین کے خلاف ہونے والے بھارتی فوجیوں کے جرائم پر توجہ دے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے عالمی یوم خواتین کے حوالے سے سلامتی کونسل کی ایک ہفتے تک جاری رہنے والی بحث میں جنگوں اور تنازعات میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ان کا کہنا تھا
کہ سکیورٹی کونسل کی بحث میں مقبوضہ کشمیر میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جاری تشدد پر کم ہی بات ہوتی ہے۔اس بات کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں مقبوضہ وادی میں خواتین کی عزت پامال کرنے کے واقعات کوجنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔یہ معاملہ جینوسائیڈل ہیٹ سپیچ اینڈ دی سٹیٹس رسپانسبلٹی کے عنوان سے واشنگٹن میں ہونے والے حالیہ ورچوئل سمٹ میں بھی اٹھایا گیا تھا۔انٹرنیشنل کریمنل ٹریبونل کے سابق رجسٹرار برائے روانڈا ایڈما ڈئینگ نے شرکا کو بتایا تھا کہ بھارت میں نسل کشی جاری ہے انہوں نے شرکاء سے اس پر قابو پانے کیلئے تجاویز طلب کی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ آج بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کو بری طرح پامال کیا جارہا ہے، بد قسمتی سے حکام اس عدم برداشت اور تعصب سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔انہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو خبردار کریں کہ بھارت میں قتل عام سے بین الاقوامی تعلقات پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک بین الاقوامی جریدے کی رپورٹ کے مطابق سال 2014 کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور انہیں گائے کا گوشت کھانے پر ہلاک کئے جانے کے واقعات متواتر پیش آرہے ہیں۔ اس طرح کورونا وبا ء اور لاک ڈاؤ ن کے دوران الزام عائد کیا گیا کہ یہ وباء مسلمانوں نے پھیلائی ہے اس بہانے مسلمانوں کو بھارت بھر میں ہراساں کیا گیا۔ یہاں تک بھی ہوا کہ بااثر رکن پارلیمنٹ اور بھارت کے سابق وزیر برائے خارجہ امور سلمان خورشید پر بھی حملہ کیا گیا اور ان کے گھر کو آگ لگادی گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خاص کر مسلمانوں کے ساتھ ظلم کے سلوک پر عالمی برادری نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ اس سلسلے میں نہ صرف آواز اٹھائی جائے بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے مودی سرکار کو راہ راست پر لایا جائے۔