سیا حوں کے مو ٹل

 فرنگی نے عجیب عجیب نا م تراش کر ہمارے منہ میں رکھ دئیے پھر یہ نا م قلم، کا غذ اور سکر ین پر آگئے، ذرا دیکھئے انہوں نے مہمان سرائے کو ہوٹل کا نا م دیا پھر ہو ٹل کوکچھ فرق کے ساتھ موٹل Motelکا نا م دیا دو روز پہلے وفاقی حکومت نے پا کستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کا ر پوریشن کے 19ہو ٹل خیبر پختونخوا کی صو با ئی حکومت کو حوالے کئے تو خبر آگئی جس میں ہوٹل کی جگہ مو ٹل کا لفظ آیا ہم نے شکر ادا کیا تم جو چا ہو نا م دو، صوبے کا ما ل صوبے کے حوا لے کرو چنا نچہ گزشتہ 12سالوں سے جو معا ملہ لٹکا ہوا تھا وہ اب حل ہو گیا ہے۔اپریل 2010 کو پاس ہو نے والی اٹھارویں آئینی تر میم کے تحت سیا حوں کے 19مو ٹل صو بائی حکومت کی تحویل میں آگئے ہیں تحویل میں آنے کے بعد صوبائی حکومت پر بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے

کہ ان کا انتظام پیشہ ورانہ مہا رت کے ساتھ چلا کر ان موٹلوں کو منا فع بخش کا روبار کا درجہ دیا جائے جو لوگ سفر کر تے ہوئے سر کار ی مہما ن خانوں میں ٹھہرتے ہیں ان لو گوں نے مشاہدہ کیاہوگا کہ مہمانوں کی ضیا فت اور خد مت کے معیارپر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ ایبٹ آباد‘ نتھیا گلی‘ سوات‘ چترال سے لیکر وانا‘ میران شاہ تک سرکاری ریسٹ ہاوس اور سر کٹ ہاؤس بنائے گئے تھے ان میں سے بعض انگریزوں نے بنا ئے بعض قیا م پا کستان کے بعد بنا ئے گئے ان میں سے کچھ بہترین حا لت میں ہیں ان کی سالانہ مرمت ہو تی آرہی ہے ان کے چمن اور باغیچے قابل رشک نظر آتے ہیں لیکن زیادہ ترجو عمارتیں سول انتظا میہ اور محکمہ تعمیرات کی تحویل میں دے دی گئی تھیں ان کی حا لت قابل رحم ہے‘ آپ کو وہاں نہ فرنیچر اچھی حالت میں ملے گا‘ نہ پانی کے نلکے اور شاور درست حا لت میں ملیں گے‘ نہ چمن اور باغیچہ آپ کو صاف حالت میں ملے گا، مو جو دہ حکومت نے صوبے میں سیاحت کے فروغ اور سیا حوں کو بہتر سہو لیات دینے کیلئے کئی اہم منصو بوں کا آغا ز کیا ہے

وزیر اعلیٰ محمود خا ن نے محکمہ سیا حت کے ذمہ دار حکام کو ہدایت کی ہے کہ روا یتی سیا حت کے مقامات پر سیا حوں کا رش کم کرنے کیلئے نئے سیاحتی مقامات کھو لے جائیں تا کہ زیا دہ سے زیا دہ سیا حوں کو صوبے کی طرف راغب کیا جاسکے اور سیا حوں کی تسلی بخش خد مت کی جا سکے‘پی ٹی ڈی سی کے 19موٹلز صو بائی حکومت کو حوالہ کرنے کے بعد سیاحوں کی اضافی مہمان نوا زی کا بوجھ صو بائی حکومت کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے اس اہم ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہونے کیلئے  شکایات کو دور کر نے کی ضرورت ہے بہتر یہ ہو گا کہ صوبے کے چند ذمہ دار آفیسر وں کو اس حوالے سے خصوصی تربیت دی جائے اور اندرون ملک ہو یا بیرون ملک ان کو ایسے مقامات کا دورہ کرا یا جا ئے

تا کہ سیاحتی سہو لت کی عما رات کی دیکھ بھال اور انتظا م و نظم و نسق کے طور طریقوں سے آگا ہی حا صل کر کے صوبے کے اندر مہمان خا نوں اور موٹلوں کا انتظام بہتر بنایاجا سکتے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاحت پر اس وقت جتنی توجہ موجودہ صوبائی حکومت دے رہی ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی پہلی دفعہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ صوبے کے ان علاقوں میں بھی سیاحوں کی سرگرمیاں نظر آنے لگی ہیں جہاں پہلے کوئی جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا تاہم بہتری کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والے مسائل کا حل نکالنا بھی ضروری ہے۔