مگر ایسے میں دل کی کٹیا میں اگر ایک موہوم سا دیا جل رہا ہوتا ہے۔جس کا نام امید ہے۔ جو دل کے اندھیرے والے گھر کو اندرسے روشن رکھتی ہے۔ فیض احمد فیض کا شعر ہے کہ ”دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے۔لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے“۔شام جتنی بھی طویل ہو جائے اس کا اختتام صبح کی صورت میں سامنے آتا ہے۔جتنا جتنا رات کا اندھیرا اپنے دامن کے کینوس کو وسیع کرتا جائے اتنا ہی دل کو سویرے کی امید زیادہ توانا ہوتی نظر آتی ہے۔احمد ندیم قاسمی کا شعر ہے ”رات جب شدتِ ظلمت سے جل اٹھتی ہے ندیم۔ لوگ اس وقفہ ئ ماتم کو سحر کہتے ہیں“۔اندھیرے کی بہتات اور اس کا وافرہونا ہی اس کی علامت ہے کہ صبح نزدیک ہے۔اگر ہمار ے سر کے آسمان پر کالے بادل چھائے ہیں اور طوفان کی خبر لائے ہیں۔مگر دل کو امید ہے اور ہاتھوں میں جنبش ہے تو اس کامطلب روح و دل میں گرمی ہے۔جو تن بدن میں پھیل کر روح کو توانااور دل کو مضبوط کر دیتی ہے۔حساس دل کو امید ہو جاتی ہے۔ اس کے دل میں توانائی کا ذخیرہ دریافت ہو جاتا ہے۔یہی امید تو ہے کہ جس کے سلسلے چلتی ہواؤں کی طرح دراز ہیں۔یہی امید بندہ کیلئے پوری زندگی کو کافی و شافی ہوتی ہے۔پھر وہ نئی تمنا اور نئی آس لئے میدان عمل میں اترتا ہے۔پھر اس کو اپنی منزل تک پہنچنا مشکل نہیں رہتا۔ کیونکہ اس نے وکٹری سٹینڈ تک پہنچنے کیلئے ایک روڈ میپ تیار کررکھا ہوتا ہے
۔جس پر دھیرے دھیرے چل کر مستقل مزاجی کو اپنا کر وہ راستے کی کٹھنائیوں کو عبور کرتا ہے۔گویا احمد فراز کے بقول ”زمانے بھر کے دکھوں کو لگا لیا دل سے۔اس آسرے پہ کہ اک غم گسار اپنا ہے“۔مقصد یہ ہوا کہ منزل کے حصول کیلئے نکلو۔کیونکہ مومن کی راہ میں آنے والی کوئی بھی منزل آخری نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ اس راہ کی پہلی منزل ہوتی ہے۔”نشیمن پہ نشیمن اس طرح تعمیر کرتا جا۔ کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہو جائے“ ”اگر ہے حسرتِ تعمیر زندہ۔ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے“۔یہی تعمیر کی خواہش اور اس کی تمنا بندہ کو سارے جہان میں لئے گھومتی رہتی ہے۔اس وطن کو بنانا ہے۔”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں“۔اقبال کے اس شعرسے نیک فال کا کام لیا جاسکتا ہے۔کیونکہ مومن کے آگے ایک کے بعد دوسری منزل اور دوسری کے بعد اگلا محنت کا امتحان شروع ہوتا ہے۔یہ امتحان ختم نہیں ہوتا۔اس کے مختلف فیز ہیں۔امتحان پر امتحان او راس کے بعد ایک اور امتحان ہوتا ہے۔مگر دل کی جھونپڑیا میں امید کا دیا جلتے رہنا چاہئے۔
اس کی چھوٹی سی حرارت کی لو روح کی گرمی کے لئے کافی سے زیادہ ہوتی ہے۔اگریہ لو نہ ہو تو اب تک تعمیر ہونے والے منصوبہ بندی کے تاج محل کے کانچ زمین بوس ہو کر ریزہ ریزہ ہو جاتے۔کبھی کبھی یہ سوچ دل کو گھیر لیتی ہے۔پھر پِنڈ چھڑائے نہیں چھوٹتا۔ ذہن و دل ماؤف ہو جاتے ہیں۔ کوئی راستہ نظر آتا ہے او رنہ کوئی راہِ فرار دکھائی دیتی ہے۔وہ یہ سوچ ہے کہ حساس دل کیوں اُداس رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ معاشرے کی کج فہمیوں کو دیکھتے ہیں۔ انسان کی نارسائی کو دیکھتے ہیں۔پھر جب ان مسائل کے حل کیلئے وہ کوشاں ہوتے ہیں۔تب ان کی راہیں بکھر بکھر جاتی ہیں۔وہ معاشرے کو درست کرنا چاہتے ہیں۔ وہ غریبوں کی بستی کو ان جھگیوں کو نیو پلاٹنگ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔مگر ایسا کرنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ایسے موقع پر ان کے لئے سوائے اُداسی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔احمد فراز نے ایسے موقع پر کہاتھا
”جہاں بھی جاناتو آنکھوں میں خواب بھر لانا۔ یہ کیا کہ دل کو ہمیشہ اُداس کر لانا“۔جب اپنی مرضی جتلائی نہ جاسکے۔جب اپنے خواب کو یا ان دیکھے خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھنانصیب نہ ہو تو بندہ اس موقع پر اُداس بھی نہ ہو تو آخر کیا کرے۔امید سے دنیاکی آبادی ہے۔یہی تو اصل ساتھی ہے۔جو پہلو بہ پہلو ساتھ ساتھ ہو تو آدمی اُداسی کے سمندر میں غوطے نہیں کھا سکتا۔پھر محنت کا ساتھ ہو پھر بھی دل کو ایک آس لگی ہوتی کہ کامیابی نہیں بلکہ کامیابیاں میری راہ میں میرا انتظار کر رہی ہیں۔راستے میں جاتے ہوئے اس رستے کے کنارے پر بہت سی آوازیں جو خوف پیدا کریں گی ان پر توجہ نہیں دینا۔ وگرنہ یہ عمر بھر کا سفر لاحاصل ہو گا۔ناک کی سیدھ میں جانا ہے۔پھر مشکلات تو ہر راہ میں کانٹوں کی طرح بکھری پڑی ہوتی ہیں۔اس راستے کو طے کرنا ہے اور ان رکاوٹوں کو عبور کرنا ہے۔۔تب اس استقلال کی وجہ سے منزل بلکہ منزلیں قریب آتی ہوئی محسوس ہو تی ہیں۔بلکہ ان کو کیا چھولیں خود یہ آپ ہی مسافر کو ڈھونڈ لیتی ہیں۔