حزب اختلاف کی جماعتیں ’تحریک ِعدم اعتماد‘ کے ذریعے وفاقی حکومت کو جس حد تک پریشان کر سکتی تھیں وہ کر چکی ہیں اور اِس پوری کوشش کیلئے تحریک انصاف کی قیادت حزب اختلاف کی مشکور بھی ہے کیونکہ بہت سے معاملات جن کی طرف توجہ نہیں دی جا سکتی تھی اُن پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ ”تحریک ِعدم اعتماد عمران خان کے لئے اطمینان کی تحریک ثابت ہو گی۔ عمران خان اگر سڑکوں پر نکل آئے تو یہ زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔“ یقینا پاکستان کی معیشت کسی بھی احتجاجی تحریک کی متحمل نہیں ہو سکتی بالخصوص جبکہ آئندہ تین ہفتوں سے بھی کم وقت میں رمضان المبارک شروع ہونے والا ہے تو ایسی صورت میں سیاسی مسائل پارلیمان کے اندر ہی بات چیت کے ذریعے حل ہونے چاہیئں۔
پاکستان مسلم لیگ (نواز) تحریک ِعدم اعتماد کے حوالے سے زیادہ متحرک دکھائی دیتی ہے۔ پارٹی کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد ِحزبِ اختلاف میاں شہباز شریف نے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کرنے کے علاوہ لیگی اراکین اسمبلی کو عشائیہ بھی دیا۔ اس دوران وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے امور کو بھی کور کمیٹی اجلاس (چودہ مارچ) میں حتمی شکل دی گئی جبکہ دیگر سیاسی مصروفیات کے باعث وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی ملتوی کر دیا گیا۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور عوام کی نظریں وفاقی کابینہ پر جمی ہیں جنہوں نے رمضان المبارک کے لئے خصوصی پیکج کا اعلان کرنا ہے تاکہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عام آدمی (ہم عوام) کیلئے رمضان اور عیدالفطر جیسی مناسبتیں سکون سے منائی جا سکیں۔ حزب اختلاف کے اعلیٰ سطحی رابطے لمحہ بہ لمحہ استوار ہیں اور اِن میں یک نکاتی ایجنڈے پر غور کیا جا رہا ہے کہ کس طرح وزیراعظم کے خلاف تحریک ِعدم اعتماد کو کامیاب بنایا جائے جبکہ اِس کیلئے درکاری عددی اکثریت کیلئے حکومتی اتحادی جماعتوں سے دوبارہ رابطوں کا فیصلہ بھی سامنے آیا ہے۔
اگر حزب اختلاف کی جماعتیں اپنی احتجاجی تحریک کو ’تحریک عدم اعتماد‘ کی بجائے مہنگائی اور اِس کی شرح میں کمی کے نکتے پر مرکوز کرتی تو اِس سے زیادہ بہتر و مفید نتیجہ برآمد ہوتا۔ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے قائدین کو اُمید ہے کہ حکومتی جماعت‘ حکومتی اتحادی اور حزب اختلاف کی جملہ جماعتیں تحریک ِعدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے اُن کا ساتھ دیں گی‘ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے مابین یہ کھینچا تانی کسی بھی مقصد کیلئے ہورہی ہے لیکن دونوں فریقوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ عوام اور ملک کو اِس پوری کوشش سے کسی بھی طرح کا نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور اس جمہوری نظام کا وجود عوام اور ملک کی وجہ سے قائم ہے لہٰذا سیاسی جماعتوں کی اجتماعی دانش کا امتحان (آزمائش) ہے کہ وہ ایک ایسا لائحہ عمل تیار (اختیار) کریں کہ جس سے اِن کی آپسی رنجشیں اور چپقلش کی قیمت عام آدمی (ہم عوام) اور بالخصوص ملک کو نہ چکانی پڑے۔
تحریک ِعدم اعتماد کے معاملے میں جملہ فریقین عوام اور ملک کی فلاح و بہبود کا نام لے کر ایسا بہت کچھ کررہے ہیں جس کی وجہ سے مسائل کم ہونے کی بجائے اِس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ایک طرف افغانستان کے غیر مستحکم حالات اور دوسری جانب بھارت کی شر پسندی کے باعث تناؤ کی صورتحال بنی ہوئی ہے اور اِس ماحول میں حکومت و حزب اختلاف کی مشترکہ توجہ کا مرکز اصولاً سیاسی رسہ کشی نہیں
بلکہ قومی معاملات و قومی سلامتی ہونی چاہئے جو پس منظر میں جا چکی ہے۔ عام آدمی کا مطالبہ اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت کو توقع ہے کہ تحریک ِعدم اعتماد کو جلد از جلد نمٹا کر سیاسی جماعتیں عوام کے ”حقیقی مسائل“ کی جانب متوجہ ہوں گی اور خود کو ”حقیقی قیادت“ ثابت کرتے ہوئے ملک کو ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن کرنے میں اپنا اپنا کردار (دامے‘ درہمے‘ سخنے) ادا کریں گی۔