وزیراعظم کا جلسوں پر آنے والے اخراجات خود اُٹھانے کا فیصلہ ایک صائب فیصلہ ہے جو بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا‘ پر دیر آ ید درست آ ید اب بھی اگر یہ فیصلہ کردیا گیا ہے تو ٹھیک ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ الیکشن پراسس کے دوران حکمران سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اپنے انتخابی جلسے جلوسوں پر جو اخراجات کرتے ہیں۔ وہ سرکاری پیسوں سے کرتے ہیں حالانکہ یہی اخراجات انہیں اپنی سیاسی پارٹی کے فنڈز سے کرنے چاہئیں قوم یہ توقع رکھتی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈر کھلے بندوں اس فیصلے کا خیر مقدم کریں گے۔ یہ بھی دیکھنے میں آ یاہے کہ ماضی میں جب بھی کوئی سیاسی پارٹی بر سر اقتدار ہوتی اور اس کے اقتدار کے دوران اس پارٹی کے بانی کی برسی یا یوم پیدائش کا دن آ تا تو اس دن کو منانے کیلئے ملک بھر میں جو تقریبات منعقد کی جاتیں ان کا بھی تمام خرچہ حکومت وقت سرکاری فنڈز سے برداشت کرتی اور اس ضمن میں زیادہ تر لوکل گورنمنٹ کے فنڈز استعمال ہوتے۔
اب بات ہوجائے بھارت کی امن دشمنی کی جس نے پورے خطے کے امن کو اپنے جنونی رویئے سے خطرے میں ڈالا ہے۔گزشتہ روزوزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوٹیرس کو ٹیلی فون یقینا ایک بروقت اقدام ہے جس میں انہیں 9 مارچ کو بھارت کی نام نہاد حادثاتی میزائل فائرنگ پر بریف کیا۔ اس دوران وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بتایا کہ بھارتی میزائل پاکستان کی حدود میں گرا، جو پاکستان کی فضائی حدود کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، یہ واقعہ بھارت کی تحفظ ہوابازی اور علاقائی امن و استحکام سے لاپروائی کا عکاس ہے۔شاہ محمود قریشی نے مطالبہ کیا کہ سلامتی کونسل سمیت عالمی برادری واقعہ پر توجہ دے کیوں کہ یہ واقعہ ہندوستان کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کا تسلسل ہے اور پاکستان حد درجہ تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے
۔دوسری طرف پاکستان نے میزائل واقعے سے متعلق بھارت کے سامنے اہم سوالات اٹھا دئیے، اب یہ بھارت پر منحصر ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سوالات کے جوابات دے۔ ویسے بھارتی طرز عمل کو دیکھتے ہوئے اس کی امید کم ہی کی جاسکتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی حکومت کی مسلم دشمنی اس وقت عروج پر ہے اور مقبوضہ وادی سمیت پورے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک کیا جا رہا ہے اور ایک عالمی رپورٹ کے مطابق یہاں پر منظم انداز میں مسلمانوں کی نسل کشی پر عمل ہورہا ہے۔بد قسمتی سے بھارتی عدلیہ پر بھی ہندو انتہاپسندوں اور بھارتی جنتا پارٹی کا دباؤ ہے اور گزشتہ کچھ عرصے سے جو فیصلے سامنے آرہے ہیں
وہ بالکل یک طرفہ ہیں ماضی میں مسلمانوں کا قتل عام کئی مرتبہ کیا گیا، بابری مسجد کو منہدم کیا گیا تاہم ان واقعات میں ملوث افراد کو سزائیں نہیں ملیں، اس کی تازہ ترین مثال بھارتی ریاست کرناٹک کی ایک عدالت کی طرف سے کلاس میں مسلمان طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے اثرات ملک کی باقی ریاستوں پر مرتب ہوسکتے ہیں اور اس فیصلے سے ہندو انتہا پسندوں کے حوصلے مزید بلند ہوں گے جن کی طرف سے مسلمان خواتین کی ہراسانی پہلے ہی ہورہی ہے۔حجاب کے حوالے سے مذکورہ تنازعہ کا آغاز رواں سال جنوری میں ہوا جب کرناٹک کے ضلع اڈوپی میں واقع سرکاری سکول میں طالبات کو حجاب پہن کر کلاس روم میں داخل ہونے سے منع کیا گیا تھا۔جس کے بعد مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انہیں تعلیم اور مذہب کے بنیادی حق سے محروم کیا جارہا ہے
۔بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 14کروڑ ہے جو اس کی مجموعی آبادی کا 14فیصد حصہ ہیں۔انسانی حقوق کے رضا کاروں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ پابندی کے فیصلے سے اسلامو فوبیا بڑھ سکتا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست پارٹی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ ہوا ہے، یہ جماعت ریاست کرناٹک میں بھی بر سرِ اقتدار ہے۔یہاں سب سے افسوس ناک امر یہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کوہراساں کرنے سمیت انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اس پر عالمی اداروں نے چپ سادھ لی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کس طرح کی بدترین صورتحال میں یہاں کے مظلوم عوام زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں تاہم پھر بھی بھارت پر نہ تو پابندیاں عائد کی گئیں اور نہ ہی اس کا سفارتی بائیکاٹ کیا گیا۔ بلکہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے مودی حکومت کے ساتھ تعلقات محض انڈیا کی مارکیٹ پر نظر رکھنے کے فارمولے کے تحت استوار ہیں۔اب ضروری ہوگیا ہے کہ عالمی برداری اپنے رویے پرنظر ثانی کرے اوربھارت پر ایک طرف اقتصادی پابندیاں عائد کرے تو دوسری طرف سفارتی بائیکاٹ کے ذریعے مودی کی انتہا پسند سرکار کو تنہا کرے اور اس پر دباؤ ڈالے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعملدرآمد کرتے ہوئے جہاں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے وہاں پورے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ کرے۔