امریکہ بھارت کی دفاعی صلاحیت اور عسکری امور میں ناتجربہ کاری کی ”پردہ پوشی“ کر رہا ہے۔اگر تو پاکستان اور بھارت کے مابین سازگار تعلقات ہوتے اور بھارت پاکستان کے ساتھ کسی قسم کی دشمنی نہ پال رہا ہوتا تو ایسے حالات میں میزائل نما کسی چیز کے غلطی سے داغے جانے کا عذر قبول کرنے میں بھی کوئی قباحت نہ ہوتی مگر پاکستان کی سلامتی کیلئے بھارتی عزائم و اقدامات کسی سے پوشیدہ نہیں‘ بھارت پاکستان پر تین جنگیں مسلط کر چکا ہے اور پاکستان کی سلامتی کے بھی اعلانیہ درپے ہے جس کی خاطر اس نے خود کو ایٹمی قوت بنایا اور امریکہ سمیت متعدد مغربی یورپی ممالک کے ساتھ جنگی دفاعی تعاون اور ایٹمی و جدید روایتی اسلحہ کی خریداری کے معاہدے کئے۔ طاقت کے زعم میں بھارت کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کو اعلیٰ حکومتی اور عسکری سطح پر چیلنج کرنا معمول بن چکا ہے
جو صرف دھمکیوں پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ پاکستان پر آبی دہشت گردی مسلط کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور تقسیم ہند کے ایجنڈے کے برعکس پاکستان کی تشکیل مکمل نہ ہونے دینے کی بدنیتی کے تحت اس نے خودمختار ریاست جموں و کشمیر پر اپنا فوجی تسلط جمایا جس پر اس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہوئے آج تک اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی برقرار رکھی ہوئی ہے اور اس پر آئینی شب خون مارنے والے اپنے پانچ اگست دوہزاراُنیس کے اقدام کے بعد پوری مقبوضہ وادی کو گزشتہ ساڑھے نوسو روز سے زائد عملاً زندان میں تبدیل کر رکھا ہے
جبکہ کشمیر پر پاکستان کے اقوام عالم میں تسلیم شدہ اور اصولی موقف کو سبوتاژ کرنے کیلئے اس نے پاکستان بھارت دوطرفہ شملہ معاہدہ کو بھی لات مار کر مقبوضہ وادی کو جبراً بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنایا۔ بھارت کی ہندو انتہا پسندی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں‘ جس کے زیراثر فروری دوہزاراُنیس کے آغاز میں پلوامہ میں بھارتی فوجی قافلے پر خودکش حملے کا ڈرامہ رچایا گیا اور پھر یکایک اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر کھلم کھلا پاکستان کی سلامتی چیلنج کرنا شروع کر دی گئی جبکہ نریندر مودی نے خود ہذیانی کیفیت میں پاکستان کے اندر گھس کر مارنے کی دھمکی دی جسے چھبیس فروری دوہزاراُنیس کو بھارتی فضائیہ کے ذریعے عملی جامہ پہنانے کی بھی سازش ہوئی اور اسی روز بھارتی فضائیہ کا دستہ پاکستان پر حملے کی نیت سے اس کی فضائی حدود میں داخل ہوا
اور جب پاک فضائیہ کے دستے نے اس کا تعاقب شروع کیا تو بھارتی جہاز بالاکوٹ کے قریب پے لوڈ گرا کر رفوچکر ہو گئے‘اگلے روز ستائیس فروری کو پھر بھارتی فضائیہ کے جہاز پاکستان کی فضائی حدود میں داخل کرنے کی کوشش کی جنہیں پاک فضائیہ کے پہلے سے چوکس و مستعد دستے نے فضا میں ہی اچک لیا اور دو بھارتی طیارے مار گرائے۔ ان میں سے ایک جہاز کا ملبہ اس کے پائلٹ ابھی نندن سمیت پاکستان میں آگرا۔ ابھی نندن کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا اور اگلے روز اسے خیرسگالی کے جذبے کے تحت چائے پلا کر بھارت کے حوالے کر دیا گیا‘ پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہزیمتوں میں لپٹی ان بھارتی سازشوں کی تو پوری اقوام عالم گواہ ہے جبکہ اس واقعہ کے بعد بھی بھارت نے اپنی سازشوں کا سلسلہ ترک نہیں کیا اور وہ اب تک ایک درجن سے زیادہ اپنے جاسوس ڈرون پاکستان کی فضائی حدود میں داخل کر چکا ہے جن میں سے ہر ڈرون پاک فضائیہ نے مار گرایا‘ اس تناظر میں امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان کی یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ انہوں نے بلاتحقیق پاکستان کی جانب فائر ہونے والے بھارتی میزائل کے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہونے اور پاکستان کے اندر ہی اس کے گرنے کے واقعہ کو ”محض حادثاتی“ کیسے قرار دے دیا۔