گھی کی تلی روٹی

گھر میں کچھ بھی نہ ہوتا تو صبح ناشتے کے سمے کم از کم یہ کرسکتے تھے کہ رات کی بچی کچھی روٹی کو گھی میں تل کر چائے کے ساتھ کھا جاتے۔ اگرچہ مزا نہ بھی آتا ہو۔مگراس وقت ناشتے کاکام نپٹ جاتا۔لیکن یہ بچپن کی باتیں ہیں‘ہم اپنی شادی کے بعد یہی کچھ کرتے رہے۔پھر برسوں بعد اب بھی یہی شیوہ ہے‘ یہ ناشتہ سادہ مگر بہ موقع پُرلطف تھا‘ ہر زمانے کے اپنے تقاضہ جات ہیں۔جو پچھلے دور کے بقایا جات کیساتھ موجود ہوتے ہیں۔جو اس کے اثاثہ جات ہیں یعنی ان رسومات کو کبھی تو خود ترک کرنا پ ڑتا ہے۔پھر کبھی زمانے کے ترقی کر جانے اور عام زندگی میں مشینوں کے چلے آنے کے بعد یہ روزمرہ کی زندگی خود بخود متروک ہو جاتی ہے۔اب تو عام چیزوں پر عام آدمی کا ہاتھ نہیں پڑتا۔

اب تو ہم گھی کی تلی روٹی سے بھی گئے۔ حالانکہ یہ سب سے آسان اور سستا ناشتہ ہوا کرتا تھا۔ جب کچھ بھی نہ ہو سکتا تو خاتونِ خانہ یہ ناشتہ تیار کر لیتی‘وقت کو گھسیٹ لیتے۔ ٹائم پاس ہو جاتا۔ بچے بڑے مزے لے کر کھاتے۔ جب انڈے پانچے، چھولے،ملائی اور حلیم،حلوہ پوڑی دستیاب نہ ہوتا تو اس طرح کا ناشتہ گھرمیں آسانی سے بن جاتا‘اب گھی ہو یا تیل ہو سب میں پانی پڑ چکا ہے۔ملاوٹ الگ اورمگر ملاوٹ والی چیز ہی مل جائے۔کیونکہ گرانی کا پہاڑ کچھ اس طرح آن گرا ہے کہ سر اٹھانا تو دور کی بات کانچ کے پیکر اس کے تلے چکناچور ہوئے جاتے ہیں۔اب تو اپنی پرانی غریبانہ سی زندگی کو بھی کھینچ کھینچ کر لے جانا پڑ تا ہے۔ اس گاڑی کا ایک ٹائر جو پنکچر ہے تو اس بائیک کو دور تک ضدی گائے کی طرح گھسیٹنا پڑتا ہے‘جانے کس جگہ اگلا پڑاؤ ہو کب اس مہم جوئی سے نجات ملے

۔اب تو گھی اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ گھی کی تلی روٹی غریبانہ انداز نہیں بلکہ عیش و عشرت والا ناشتہ بن چکا ہے۔کیونکہ ان دنوں زندگی کی گاڑی میں گھوڑے کی جگہ خود بندہ جُتا ہوا ہے۔پھر بھی ہم انجوائے کر رہے ہیں۔چلو اسی کا نام زندگی ہے‘کبھی غم او رکبھی خوشی ہے۔وہ دن نہیں رہے یہ دن نہیں رہیں گے‘کبھی تو ملیں گے بہاروں کے سائے‘ بہار اب آہی گئی ہے‘درختوں نے رفتہ رفتہ سبز لباس پہننا شروع کردیا ہے‘کچھ ہی دنوں میں یہ سراپا سرسبز ہو جائیں گے‘ اسی طرح زندگی بھی اپنے انداز بدلتی رہتی ہے‘پہلے جو کمیاں ہوتی ہیں وہ آئندہ نہیں رہتیں‘بندہ کو جو ٹھوکر لگی ہوتی ہے وہ راہ کی زنجیر نہیں بن پاتی‘کیونکہ کہیں یارِ مہرباں ہوتے ہیں جو سہارا دے ڈالتے ہیں‘بندہ پھر سے چلنا شروع کر دیتا ہے‘مگر اس کیلئے زندہ رہنا شرط ہے

”خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک‘گزر ہی جائے گی یہ رُت بھی حوصلہ رکھنا“۔پھر اس موقع پر ایک اور شعر لبوں پر کھیلے لگا ہے ”زندگی ہے تو خزاں کے بھی گزر جائیں گے دن‘فصلِ گل جیتوں کو پھر اگلے برس آتی ہے“‘وقت کاپہیہ گول گول گھومتا ہے‘آج کچھ اورکل کچھ اور‘حالات ایک جیسے نہیں رہتے‘خزاں اوربہار تو اسی چمن کا حصہ ہیں‘کبھی خزاں ڈیرے ڈال دیتی ہے اور کبھی بہار‘ اس کو شکست دے کر خود چمن و باغ پر راج کرنے لگتی ہے‘زندگی ہے اگر نہ بھی گذرے تو گذارناپڑتی ہے‘روکھی سوکھی کھا کر پانی پیا اور چارپائی پر لوٹ ماری اور سوگئے۔ چلو زندگی کا ایک اور دن کٹ گیا‘آدمی اگراپنے سے کمزور طبقے کو دیکھے تو صبر آ جاتا ہے‘وہ جس طرح کی زندگی گزارنے پر مجبورہیں یہ کچھ انھی سے پوچھیں۔ ہر کسی کو صبح دم ناشتے کے وقت ملائی میسر نہیں‘

کچھ تو باسی روٹی چائے کے ساتھ نوشِ جاں کرتے ہیں‘کچھ کوتو یہ بھی مہیا نہیں‘ جو وقت گذر گیا اس پر شکر کرنا چاہئے‘جو آنے والا ہے اس کیلئے دعا سے اور محنت سے کام لینا ہوگا‘ وگرنہ تو بندہ ماضی کی حسین یادوں کو لے کربیٹھ جائے تو پوری زندگی کیا گزر پائے۔ تکلیف کے عالم میں ایک دن بھی گزر نہ سکے یہ زندگی تو کیا پوری کائنات گول پہیے پر گھوم رہی ہے اورمسلسل حرکت میں ہے‘ہر لمحہ بدلتی ہوئی‘یہ کائنات لاکھوں سال پرانی ہے مگر اس کا نیا پن ہے کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہا‘ اس لئے جو کل تھا وہ آج نہیں۔پھر جو آج ہے اور اگر برا سہی مگر آنے والے دنوں میں نہ ہوگا۔ ضروری نہیں جو آج تکلیف میں ہے کل بھی اسی زحمت میں مبتلا ہو۔شعر ہو اور احمد فراز کا ہو تو خود یاد آ جاتا ہے۔ ”اُداسیوں کا سبب کیا کہیں بجز اس کے۔یہ زندگی ہے پریشانیاں تو ہوتی ہیں“۔