سیاست ممکنات کا نام ہے 

اس وقت سیاسی گرمی گرمی کے ماحول میں ایک بات جو شدت سے محسوس ہورہی ہے وہ ہمارے ہاں سیاست میں تحمل و برداشت کا مادہ کم ہونا ہے، کسی وقت سیاسی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے اور صبر وتحمل سے ایک دوسرے کے موقف کو سننے کی رو ش موجود تھی۔اسی طرح کسی زمانے میں اس ملک کے بعض اہم مقامات جیسا کہ چوک یادگار پشاور‘ فوارہ چوک پشاور صدر‘لیاقت باغ راولپنڈی‘ موچی گیٹ لاہوور وغیرہ وغیرہ وہ مقامات ہوا کرتے تھے کہ جہاں سیاسی پار ٹیاں اپنے اپنے جلسے منعقد کیا کرتی تھیں یہ جو ڈی چوک اسلام آباد ہے یہ تو ماضی قریب کی پیداوار ہے چونکہ یہ وفاقی دارالحکومت میں واقع ہے جہاں ملک کے کئی حساس ریاستی اداروں کے دفاترہیں اور وہ پاکستان میں تعینات غیر ملکی سفارتکاروں کا مسکن بھی ہے اس لیے کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اسے سیاسی ہلا گلا سے دورہی رکھا جائے تو بہترہے،

اس سلسلے میں حکومت اور حزب اختلاف کواتفاق رائے کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ دارلحکومت کے اس حساس علاقے کو جلسوں اورجلوسوں کا مرکز نہیں بنایا جائے۔  محب وطن لوگ متفکر ہیں کہ خدا نخواستہ اگر ان دو مخالف سیاسی گروہوں میں تصادم ہو گیا تو اسے سنبھالے گا کون؟۔ آئندہ چند روز اس ملک کے امن عامہ کیلئے انتہائی اہم ہیں۔جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ سیاست میں فریقین دروازے بالکل بند نہیں کیا کرتے سیاست نام ہے ممکنات کا سیاست نام ہے کچھ لو کچھ دو کا اور یہ روش ہمیں سر دست دکھائی نہیں دے رہی ہے۔دوسری طرف خبریں سامنے آرہی ہیں

کہ پاکستان میں تیل کمپنیوں کی جانب سے موجودہ سال کے آغاز سے ڈیزل کی کم درآمد کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملک میں کام کرنے والی تیل کمپنیوں نے رواں برس جنوری سے اب تک، ان تخمینوں سے کم ڈیزل درآمد کیا ہے جو حکومت کی جانب سے ایک کمیٹی کے فیصلوں کے تحت انھیں درآمد کرنا ہوتا ہے۔کہا جارہا ہے کہ اب تک ٹارگٹ سے دو لاکھ میٹرک ٹن کم ڈیزل درآمد کیا گیا ہے۔ پی ایس او نے وزارت توانائی کو ایک خط میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں ملک کو ڈیزل کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال کا ملک میں گندم کی کٹائی کے سیزن پر اثر پڑ سکتا ہے جب ملک میں ڈیزل کی مانگ بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے

۔تیل و گیس کے نگران ادارے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے بھی وزارت توانائی کے نام ایک خط میں زور دیا ہے کہ گندم کی کٹائی کے موسم میں ڈیزل کی طلب بڑھنے والی ہے۔ اوگرا نے سفارش کی ہے کہ بینکوں کی جانب سے تیل کمپنیوں کو زیادہ رقم فراہم کی جائے تاکہ وہ ملک میں زیادہ ڈیزل درآمد کر سکیں۔حقیقت یہ ہے کہ اہم فیصلے اگر بروقت نہ کئے جائیں تو ان کے مثبت اثرات پھر سامنے نہیں آتے۔آٹے، کھاد اور کئی دیگر اجناس کی کمی کی صورت میں سامنے آنے والے بحران اسی طرز عمل کا نتیجہ تھے۔اس لئے ڈیزل کی کمی کے اثرات سامنے آنے سے قبل ہی اس کا تدارک ضروری ہے۔ اس سے پہلے کہ زراعت کا شعبہ جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس سے متاثر ہو جس کے براہ راست منفی اثرات خوراک کے شعبے پر مرتب ہوں گے۔قبل از وقت موثر اقدامات اٹھائے جائیں اور ڈیزل کی ممکنہ کمی کو بروقت پورا کیا جائے۔اب بات ہوجائے بھارت کی ایک اور ہزیمت کی جس کا سامنا اسے اقوا م متحدہ میں کرنا پڑا‘جہاں 15مارچ کو منظور کی گئی اسلاموفوبیا کے عالمی دن کی قرارداد پر بھارت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔کیونکہ بھارت ہی ہے

جہاں پر مسلمانوں کو ایک خطرے کے طور پر پیش کیا جارہاہے اور انہیں زندگی کے تمام شعبوں میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اسلئے تو جب اقوا م متحدہ نے اسلامو فوبیا کے خاص دن کا تذکرہ کیا تو بھارت کو اس آئینے میں اپنا چہرہ نظر آیا۔ اس کا حل تو یہ ہے کہ بھارت عالمی برداری کی تشویش رفع کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کرے اور ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں ان کی زندگی جس طرح اجیرن بنادی گئی ہے اس عمل کو روکے۔تاہم بد قسمتی سے مسلمان اور پاکستان دشمنی بی جے پی کی ووٹ لینے کی پالیسی بن گئی ہے، پارٹی سیاست کیلئے بی جے پی نے خود بھارت کی سالمیت کو خطرے میں ڈالا ہے جہاں اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس عروج پر ہے اور کئی علاقوں میں خودمختاری کی تحریکیں پروان چڑھ رہی ہیں۔وہ وقت دور نہیں جب بھارت کو اپنی متعصبانہ پالیسیوں کا نتیجہ قبول کرناہوگا اور یہ ملک کئی حصوں میں بٹا نظر آئے گاجس طرح بھارت میں ہندوانتہاپسندی عروج پر ہے جلد یابدیر یہ مرحلہ طے ہونا ہے۔