صبیح
جی نہیں آج پہلی تاریخ کیوں ہونے لگی۔یہ تو مہینے کے اس روز کی بات ہوتی ہے جب پہلی تاریخ ہوتی ہے۔تنخواہیں وغیرہ سب کو مل جاتی ہیں۔اگرچہ کہ بعض حضرات کو سیلری دس تاریخ کو اور بعض کو پندرہ تاریخ تک ملتی ہے۔مگر وہ غیر سرکاری اہل کار ہوتے ہیں۔ بیچارے چُپ کر کے بیٹھے ہوتے ہیں۔مل مالک کے ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ سرکاری تنخواہوں میں بہت تاخیر ہو تو کسی وجہ سے ہوتی ہے۔پھر تین تاریخ تک تو سب سرکاری لوگ نپٹا لئے جاتے ہیں۔پہلی تاریخ کا ذکر کیا کریں۔ یہاں تو بینکوں کے کمپیوٹرخراب ہونے اور دیگر مسائل کی وجہ سے تنخواہ اے جی آفس سے بینک میں آ تو جاتی ہے مگر مل نہیں پاتی۔ بعض اوقات اے ٹی ایم مشین کام نہیں کرتی۔
کہتے ہیں جس بینک کا کارڈ ہے اسی بینک کی اے ٹی ایم مشین استعمال کریں۔ کبھی تو اے ٹی ایم مشین ٹھیک ہوتی ہے مگرلنک ڈاؤن ہوتا ہے۔رقم اکاؤنٹ میں موجود بھی ہوتی ہے مگر نکلوا بھی نہیں سکتے۔مطلب یہ ہوا کہ آپ پورے ملک کی کسی بھی اے ٹی ایم پر چلے جائیں آپ رقم نکالنے میں ناکام رہیں گے۔چارو ناچار کسی سے ادھار پکڑنا پڑتا ہے۔ کیونکہ بینک میں کیا جائیں اور پوچھیں کہ دیکھتے دیکھتے یہ کیا ہوگیا۔ اس لئے نہیں پوچھ سکتے کہ اگلے دن ہفتہ اور دوسرے دن اتوار ہوتی ہے۔بندہ حیران و پریشان ہو جاتا ہے۔پھر کہیں مشین اسی دوران میں درست بھی ہو جاتی ہے۔مگر اس لمبی سڑک کے ہر بینک کے باہر ہر اے ٹی ایم کو چیک کرناپڑتا ہے۔کہیں تو جن کواے ٹی ایم کارڈ استعمال کرنے کی سمجھ نہیں ہوتی۔لنک ڈاؤن کو اب وہ کیا سمجھیں۔بار بار اے ٹی ایم مشین میں کارڈ ڈالنے کے بعد یہ اے ٹی ایم مشین اچانک ان کا کارڈ ہی ہڑپ کر لیتی ہے۔پھر وہ چھلانگیں لگاتا ہے۔کبھی ایک سے پوچھتا ہے کبھی دوسرے سے۔کبھی کیبن کے باہرلائن میں لگے ہوئے بندے کو اندر بلا کر اے ٹی ایم مشین دکھلاتا ہے کہ دیکھو میرا کارڈ اس مشین نے اُچک لیا ہے۔مگر اب کیا ہوسکتاہے۔
اس کو ہدایت کرتے ہیں آپ اسی بینک میں پیر والے دن آکر اندر سے اپنا کارڈ حاصل کر سکتے ہیں۔خود ہمارے ساتھ بھی دو ایک بار ایسا ہو چکاہے۔خاص طور عید یاکسی اور موقع پر ہفتہ اتوار ساتھ ملا کر لمبی چھٹیوں میں بندہ اس موقع پر کہ کارڈ مشین نے نوچ لیا عاجز و مسکین بن جاتا ہے۔اس کو نہ تو کارڈ ملے گا او رنہ ہی اس کو کسی نے قرض دینا ہے۔کیونکہ ہر آدمی کے ان دنوں اپنے الگ سے مسائل ہو تے ہیں۔ بڑی عید ہو تو بڑے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہوتا ہے کہ کیا کریں۔وہاں پہلی تاریخ ہوتی ہے۔جنرل سٹوروالے کو اور دودھ والے کو تندور والے کو اچھی خاصی رقم دیناہوتی ہے۔وہ اور اس کے ساتھ دوسرے دکاندار اس امید میں ہوتے ہیں کہ صاحب رقم لائیں گے اور پورے مہینے کا حساب چُکتا کریں گے۔ اس موقع پر دکانداروں سے آپ کیا کہیں گے کہ اے ٹی ایم مشین نے میرا کارڈ نگل لیا ہے۔وہ جواب دیں گے یہ کیا ہوتا ہے۔وہاں اخبار والا فون کرنا شروع کردے گا۔ جس کا پچھلے مہینے کا کاحساب بھی رہتا ہوگا۔مالک مکان کرایہ کیلئے فون پہ فون کریگا۔درزی سے سلا سلایا جوڑا اٹھانا ہوگا۔گھر کے اندر سے مزاحمت کا سامنا ہوگا۔اے ٹی مشین نے کارڈ ہڑپ کر لیا۔
اس بات کو کوئی نہیں مانے گا۔ یہی کہیں گے جھوٹ بول رہاہے۔پھر اگر اے ٹی مشین ٹھیک بھی ہو اور ساتھ میں آپ کے اکاؤنٹ میں رقم بھی ہو تو تین چھٹیوں میں عوام الناس کا جلوس ہر اے ٹی ایم کیبن کے باہر کھڑا ہوتا ہے وہ سب رقم نکلوا لیں گے۔آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔سب مشینیں خالی پڑی ہوں گی۔مشینوں نے سب کچھ اُگل کر اگلے کی جھولی میں ڈال دیا ہوگا۔خاص طور پر بڑی عید کے دنوں میں تو شہریوں نے قربانی کیلئے مال مویشی خریدناہوتے ہیں۔ سو وہ اے ٹی ایم کو ہزاروں روپوں کے نکلوا لینے کے بعد خالی کر دیتے ہیں۔ غریب عاجز مسکین کے ہاتھ اپنے گھر کے خرچے کیلئے بھی رقم دستیاب نہ ہوگی۔خیر یہ تو ہمارے سسٹم کی کمزوری ہے بلکہ بینک کے اندر بذریعہ چیک بھی رقم نکلوانا ہو تو اندر بڑے صاحب کافرمانا ہوتا ہے کہ سسٹم خراب ہے۔صبح سے کسٹمرز بیٹھے ہیں۔ آپ سرگھما کر دیکھیں گے تو واقعی وہاں بزرگ خواتین بھی بیٹھی ہوں گی جو شوہر کی وفات کے بعد اس کی ماہانہ پنشن کیش کرنے آئی ہوں گی۔
بوڑھے سفید ریش بزرگ بھی حیران و پریشان کھڑے ہوں گے۔یہاں وہاں دیکھ رہے ہوں گے۔کیونکہ سسٹم خراب ہے۔اب کمپیوٹر میں عملے کانیٹ کام کرے تو پتا چلے کہ ہم نے کسٹمر کو کتنے پیسے دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ بغیر کاغذی کاروائی کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔پھر سسٹم ٹھیک ہو بھی جاتا ہے۔مگر اچھی خاصی دیر لگ جاتی ہے۔کہیں موٹر سائیکل کی قسط جمع کروانا ہوتی ہے جو بینک میں جمع نہیں ہوتی۔ان کیلئے تو پرائیویٹ شو روم ہوتے ہیں۔کہیں لوگوں نے ہمسایوں رشتہ داروں اور دوستوں کے پاس کمیٹیاں ڈال رکھی ہوتی ہیں۔ان کو پیسے دینا ہوتے ہیں۔مگر سوچنا ہے کہ ہمارا سسٹم کب ٹھیک ہوگا۔