یہ کون سے دوست ہیں 

جوان جہان ہیں اور نشے کی لت کا شکار ہیں۔ نوخیز اٹھتی ہوئی جوانیاں۔ان کو نشے سے باز رکھنا ہے۔یہ ہمارا سرمایہ ہیں۔مگر تعمیروترقی کی راہ میں لگایا گیا یہ سرمایہ ڈوب جانے کے خطرے سے دوچارہے۔نشہ تو کسی طرح بھی قابلِ تعریف نہیں۔خواہ جوان ہو نوجوان یا گذری عمر کے لوگ اس کا شکار ہو ں۔ کئی تو اس نامراد عادت میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔کئی تو اتنا ڈھیٹ بن چکے ہیں کہ بھلے چنگے قدوقامت میں سوکھ کر ٹانٹا بن گئے۔کئی ایک گوشت چڑھے ہوئے خوبصورت جسم کو جیسے دھوپ میں خشک کر کے سر پہ چادریں ڈالے دن کی روشنی میں عین سڑک کنارے گروپ میں ساتھ اپنے ہوش بھی لٹا چکے صحت بھی برباد کر چکے۔ان کو لے جاکر سنٹر میں داخل کرواؤ مہینہ بھر علاج ہوگا وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔مگر مہینہ اور گذرے گا کہ وہ دوبارہ اسی نشے کی گرفت میں ہوں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ صرف اس کا علاج ہوا اس کے باقی دوستوں کا علاج نہیں ہوا۔

وہ جو اس کو روز ملتے ہیں اور مل کر سگریٹ پھونکتے ہیں۔اس دھوئیں کے غبار میں اپنی جوانیاں جلا ڈالتے ہیں۔جانے کون کون سے نشے کرتے ہیں او رکس کس طرح کرتے ہیں۔ جو خود چاہتا ہے کہ نشے کی ذلت سے جان چھوٹے وہی قابلِ علاج ہے۔ وگرنہ تو اس کو جتنی بار بھی ہسپتال میں داخل کروالیں دوبارہ اسی آکٹوپسی کے پنجوں میں پھنس جائے گا۔بھلی چنگی جوانی ہے اور نشے کی عادت سے مجبور ہے۔ یہ ہمارے لخت ِ جگر ہیں جو ا س مصیبت کا شکارہیں۔میں کہوں ان کو خود بھی اس بات کا احساس ہے کہ یہ درست نہیں۔وہ خود چاہتے ہیں کہ کوئی آگے آئے اور ان کو اس آزار سے نجات دلائے۔ کیونکہ اس سے بندہ کہیں کا نہیں رہتا۔ یہ نشہ کیسے ہوتا ہے اور کہاں کہاں اس کے سنٹرکھلے ہیں۔اس تفیصل میں جانا اس لئے بیکار ہے کہ یہ آگ کا کھیل گھر گھر میں کھیلا جا رہاہے۔اب سنٹروں تک بات محدود نہیں رہی۔گھر کے چراغ اپنے مکان  کے دروازوں کھڑکیوں کے پردوں کو آگ لگا دینے کی کوشش میں ہیں۔

جتنے بھی لوگ جو اس موذی مرض کاشکار ہیں وہ تو ہیں۔خدا کرے کہ وہ اس تباہی سے نجات حاصل کرلیں۔مگر افسوس ہوتا ہے اور دکھ بھی کہ جو نوجوان ہیں لڑکے ہیں۔جن کی داڑھی مونچھ بھی ابھی تک نہیں آئی وہ اس وبال میں یوں گرفتار ہیں کہ ماں باپ تک کو علم نہیں کہ یہ نشہ بھی کرتا ہے۔ اگر کسی ماں باپ کو ان کی شکایت لگا دیں تو وہ آپ کے اس طرز عمل پر ناراض ہو جائیں گے جھوٹے منہ ہنس کر انکار کریں گے کہہ دیں گے آپ کو غلط فہمی ہے۔ ہمارا بچہ ایسا نہیں۔وہ اچھے دوستوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے۔والدین اگر بچے کو بلا کر پوچھیں تو بیٹا انکار میں حیران ہوگا جیسے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔معصوم بن کر امی ابو کو ٹُکر ٹکر دیکھے گا۔ اس کی مصنوعی معصومیت ہی اس بات کا ثبوت ٹھہرے گا کہ بچہ نشہ وشہ نہیں کرتا۔اس پر جان بوجھ کر خاندان کا کوئی فرد جلاپے میں عذاب کا نشانہ بنانا چاہتا ہے۔

نشے کی یہ دنیا ایک وسیع و عریض دنیا ہے۔مگر کمال یہ ہے کہ بہت خفیہ ہے۔ اس کے پینے والے کہیں تو ظاہر ہیں اور کہیں خفیہ ہیں۔ اس طرح کہ آپ کو ان پر زندگی بھر بھی گمان نہ گذرے۔مگر ان کا بھانڈا پھوٹ جائے اور  چوری پکڑی جائے تو وہ مزید بے باک ہوجائیں گے۔ کہہ دیں کہ میں تو یہ نشہ بیس سال سے کررہاہوں جب سکول میں پڑھتا تھا۔حیرانی ہوتی ہے کہ ماں باپ کو معلوم ہی نہیں ہوپاتا۔افسوس ہوتا ہے ان دوستوں وغیرہ پرجو بچے کو اس نشہ پرلگاتے ہیں۔یاری دوستی میں جب باقی کے یار کوئی بھی نشہ کر رہے ہوں تو اس ماحول سے اثر نہ لیا جائے ایسا نہیں ہو سکتا۔لازمی ہے اگر روز کاملنا ہے تو وہ بچہ بھی ان کے نرغے میں پھنس جائے گا جو نشہ کرتے ہیں۔پھر ایک بار سگریٹ ہو یا کوئی اور نشہ ہو منہ کو لگ جائے تو بندہ اس کے نرغے میں یو ں پھنس جاتا ہے

جیسے جالے کی مکڑی کسی مکھی مچھر کو قابو کر کے اسے کھاجاتی ہے۔ایسے میں اس بیماری آزاری سے پیچھا چھڑا نا از حد مشکل ہوا جاتا ہے۔کہیں تو ممکن ہو تا ہے مگر نشہ کرنے والے میں خود علاج کی خواہش ہونی چاہئے۔کیونکہ زبردستی اس کو اٹھا کرلے جانااور نشے کے ہسپتال میں داخل کروانا بیکار ثابت ہوگا۔بڑے غریب اور بڑے مالدار دونوں کو یہ لت لگی ہوئی ہے۔وہ بیزار ہیں مگر کیا کریں۔اگر سگریٹ کو ہاتھ نہ لگائیں تو ان کاگذارا نہیں۔پھر دوستوں سے ملناجلناچھوڑ دیں ایسا ممکن نہیں۔دوست اس کے پیچھے گھر تک آئیں گے۔پوچھیں گے خیر توہے آ نہیں رہے۔مگر یہ کون سے دوست ہیں۔یہ کہاں کی دوستی ہے۔یہ اگر دوستی ہے پھر دشمنی کسے کہا جائے۔