شناخت سے حقوق کا سفر

خواجہ سراؤں کو درپیش مسائل اور اِن میں پایا جانے والا خوف جسے اصطلاحاً ”ٹرانس فوبیا“ کہا جاتا ہے ایک حقیقت ہے  اور ’ٹرانس جینڈر کمیونٹی‘ کے خلاف مسلسل تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو کسی بھی صورت  مثبت اشارہ نہیں۔ اس رجحان کی حوصلہ شکنی اور حسب قانون اِس سے چھٹکارے کی کوشش ہونی چاہئے۔ خواجہ سراؤں پر تشدد کے حوالے سے تازہ ترین پرتشدد واقعہ مانسہرہ میں پیش آ یاہے جہاں سے آمدہ اطلاعات کے مطابق پانچ خواجہ سراؤں کو گولی مار دی گئی۔ وجوہات کیا تھیں یہ ابھی واضح نہیں لیکن غالب گمان یہی ہے کہ اِس جرم کا ارتکاب کرنے والوں نے حسد یا غصے کی وجہ سے یہ اقدام کیا ہے تاہم ماضی میں خواجہ سراؤں پر اس طرح کے حملوں کی بہت سی وجوہات رہی ہیں۔ اِس طبقے (کمیونٹی)کے خلاف پائی جانے والی عمومی نفرت اور امتیازی سلوک جس کے بنیادی عوامل ہیں۔ ذہن نشین رہے اور قابل فخر و ذکر ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند یعنی بارہ ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے شناختی کارڈ پر مرد اور عورت کے علاؤہ خواجہ سراؤں کو بھی بطور الگ جنس رکھتے ہوئے ملک کا مساوی شہری تسلیم کیا ہے۔

علاؤہ ازیں خواجہ سراؤں کے تحفظ کیلئے قانون سازی یقینی بنانے میں بھی اہم پیش رفت ہوئی ہے لیکن خواجہ سراؤں کے حالات (شب و روز) نہیں بدلے اور نہ ہی اُنہیں درپیش خطرات کم ہوئے ہیں۔ درحقیقت پاکستان میں خواجہ سرا اپنی شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ خواجہ سراؤں کی آبادی والے علاقوں میں بالخصوص قانون شکن عناصر پر نظر رکھیں اور اُن  کی حفاظت بہرصورت یقینی بنائی جائے‘ جو ایک خاص قسم کی منفی و پرتشدد سوچ کے نشانے پر ہیں۔ اِس مرحلہئ فکر پر نہ صرف ریاست بلکہ عوامی حلقوں کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ جرائم رونما ہونے کے بعد دوڑ دھوپ کا فائدہ نہیں جبکہ قانون کو اُس وقت بھی حرکت میں آنا چاہئے

جب ایسے واقعات کا مؤجب نفرت منظرعام پر آ جاتی ہے اور بالخصوص جب اِس بارے میں پولیس سے رجوع کیا جاتا ہے لیکن ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں خواجہ سراؤں کی شکایات کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی گئی۔ ہمیں بحیثیت قوم اِس بارے میں غور کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معاشرے کے سب سے زیادہ کمزور لوگوں کو کس قدر کم تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ مسئلہ صرف قانون نافذ کرنے والے اِداروں کی عملاً کارکردگی کا ہے۔خواجہ سراؤں پر حملوں کی عام وجہ یہ ہے کہ مجرموں کو لگتا ہے کہ رعایت حاصل کر لی جائے گی کیونکہ خواجہ سراؤں کی طرف سے مقدمات کی خاطرخواہ پیروی نہیں ہوتی۔ اِس تاثر کو زائل ہونا چاہئے بالخصوص ایک ایسی حکومت کے دور میں جبکہ عوام سے انصاف کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا ہے۔

بہرحال خوش آئند ہے کہ بامعنی قوانین موجود ہیں لیکن صرف قوانین کی موجودگی کافی نہیں اور خواجہ سراؤں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے ابھی مزید کئی ایک مراحل طے کرنے ہیں۔ خواجہ سرا چاہے جہاں کہیں بھی رہتے ہوں اُن سے متعلق معاشرے میں وسیع تر قبولیت عام ہونی چاہئے جو بنا شعور و آگہی ممکن نہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح دوہزارسترہ کی مردم شماری کے دوران خواجہ سراؤں کی آبادی تعداد کے لحاظ سے کم شمار ہوئی اور اِس پر خواجہ سراؤں نے احتجاج بھی کیا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ریاستی پالیسیوں میں بھی گنجائش پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ خواجہ سرا ایک ایسا طبقہ ہے جسے معاشرے میں عموماً اِس کی ثانوی حیثیت تک سے محروم کردیا جاتا ہے۔

خواجہ سراؤں کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے مظالم اور ان پر بڑھتے ہوئے پرتشدد حملے‘ خاص طور پر حالیہ چند برس میں رونما ہونے والے واقعات اس بات کی یاد دہانی کے طور پر دیکھے جائیں کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو قانون کے تحت مساوی حقوق اور تحفظ حاصل ہے۔