جتنی آبادی بڑھ رہی ہے اتنا ہی اس شہر کا ماحول تنگی تُرشی کا شکار ہورہا ہے۔جو وسعتیں تھیں اپنے پروں کو سمیٹے پنجرے کے پنچھی کی طرح ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئی ہیں۔گرمی بڑھ رہی ہے۔ گذشتہ روز اورپھر اس سے پیوستہ سب شب و روزگرم تھے۔ آگے بھی گرما کی شدت میں اضافہ ہونے جا رہاہے مگر ایسے میں شہر کی صورتحال اس کا ماحول آب وہوا ویسے خوشگوار نہیں رہیں گے جیسا سرمامیں تھے۔اب خنکی کم ہونے لگی ہے۔حبس کے اختیارات زیادہ ہوتے جائیں گے۔ حتیٰ کہ تین مہینے تو نظر آتا ہے کہ گرمی کے آسمان کے نیچے جسم پر چٹکیاں کٹیں گی۔ اس کے علاوہ بھی اور بہت سے مسائل ہیں جن کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنا بہت ضروری ہے۔اگر آبادی ہماری زیادہ آمدن کے سامنے بڑھ جائے جیسا کہ چین میں ہے تو الٹا اچھا شگون ہوگا۔ مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں۔
ہم تو ایک چیز کے پیچھے لگ جائیں تو پھر مشکل ہے کہ اس کا پیچھا چھوڑیں۔اب شہر میں گند زیادہ ہو رہا ہے۔گلی کوچوں میں کوڑے کے نئے ڈھیر استوار ہو رہے ہیں۔یا تو یہ پبلک گندکے شاپرلے کر تھوڑا دورنہیں جاتی۔گھر سے نکلے تو اپنی دہلیز سے تھوڑا دور کہیں بھی موقع لگے کوئی پوچھنے والا نہ ہو تو وہ یہ شاپر کسی اور کے دروازے کے پاس رکھ کر غائب ہو جائیں گے۔ جن گلیوں میں صفائی ستھرائی تھی اب وہاں گلی ہی میں کوڑے کا نیا ڈھیر بن گیا ہے،لوگ گند کے اوپر گند اور شاپر کے ساتھ ایک اور کوڑے کا شاپرلا کر یہاں جمع کر دیتے ہیں کیونکہ ظاہر ہے کہ جب آبادی زیادہ ہو گی تو کاٹھ کباڑ کوڑا کرکٹ بھی زیادہ ہوگا۔کبھی شہر کی وسعتوں کا المیہ تھا مگراب وہ وسعت پذیر شہر آخر کار تخلیق ہو چکا ہے۔مگر اب اس کی وسعتیں بھی تنگ دامانی کاشکار ہونے لگی ہیں۔
ہر طرف جہاں جائیں پاؤں رکھنے کی جگہ نہ پائیں۔ حیران ہو ں کہ اب اگر یہ حال ہے تو آئندہ آنے والے سالوں میں جانے کیا ابتری مچنے والی ہے۔یہ شہرِ گل کراچی کی طرح پھیل جائے گا۔اس کے اندر سے گاڑی میں نکل کر شہر کے باہر جاؤ گے تو گھنٹہ بھرتوشہر کے اندر ہی گاڑی گھومتی رہے گی۔ تیس لاکھ اس کی آبادی ملک کے سب سے بڑے شہر کی طرح تین کروڑ تک جا پہنچے گی یا لاہور کی طرح اس کی آبادی ایک کروڑ ہو جائے گی۔ یہ تیس لاکھ کا ہندسہ تو میں نے ڈسٹرکٹ پشاور کا دیا ہے۔مگر خاص شہر پشاور کی آبادی زیادہ سے زیادہ پندرہ لاکھ ہے۔اب اگر دوسرے شہروں کے مقابلے میں اس کی آبادی اتنی کم لگ رہی ہے تو آئندہ تو یہ آبادی کے حساب سے بڑے شہروں میں شمار ہونے لگے گا۔آبادی جو جو اشیاء استعمال کریگی اس کا کوڑا اور گند گریل بھی پیدا ہوگا۔پھر اس عمل کی نکاسی نہ ہو اور یہی گند گھر کے باہر ڈھیر کی صورت میں شہر کے اندرہی موجودہو تو اس میں روز بروز کمی تو نہ آئے گی الٹا ماحول میں حبس زیادہ ہو جائے گی کیونکہ وسعتیں تو اب تنگ ہو ئی جاتی ہیں۔اب تو شہر میں کہیں بھی گھوم جاؤ یہ احساس کم ہوتاکہ شہر پھیل گیا ہے۔
ہر جانب رش کا عالم ہے بھیڑ بھاڑ ہے او ر ہجوم ہے۔کسی گلی سے نکلو کہ چلو اس طرف سے رش کا سامنا نہیں ہوگا مگر جیسا آپ نے سوچا ویسا ہی دوسری گاڑیوں والوں نے بھی سوچ بچار کر کے اس راہ میں قدم رکھاہے۔سو وہ شارٹ کٹ والی گلی اتنی مصروف ہوگی کہ وہاں داخل ہو کر سوائے پشیمانی کچھ ہاتھ نہیں آئے گا کیونکہ اگر آگے کو سرکنے کی راہ نہ ملے تو واپسی کا بھی راستہ نہیں ہوتا۔یہ سب آلودگی بڑھنے کی وجوہات ہیں اور ماحول کو خراب کرنے کا سبب ہے۔پھر اوپر سے آہستگی سے چھاجانے والا گرمی کاموسم ہے۔جو اپنی جگہ خود ایک آلودگی محسوس ہوتا ہے۔سورج کی روشنی بہت ہوتی ہے۔مگر دل پر اندھیرے چھائے رہتے ہیں کیونکہ اس موسمی تبدیلی میں شہر کی آبادی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے اور پھر اوپر سے اسی آبادی کاڈالاہوا گند اتنا زیادہ ہو جاتاہے کہ حبس اور مکھی مچھر اور گند گریل سب کچھ دل پر اوپران کے احساس کو دو گنا کر دیتا ہے۔اس مصیبت کو ٹالنے کی کوئی سبیل نکالنا پڑے گی وگرنہ آلودگی کا جن بوتل سے نکل پڑاتو اس شہر میں گھومتے ہوئے سانس لینا بھی ایک سزا محسوس ہوگا۔