پہلی بات (طرز ِفکروعمل): پاکستان کی سیاست میں ایک دوسرے کی مخالفت کرنے والوں کو دو واضح طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ ہیں جو قومی مسائل کو بحران تک پہنچانے کا باعث ہیں اور دوسرے وہ ہیں جنہوں نے الجھنیں پیدا کر رکھی ہیں۔دوسری بات (طرز سیاست و حکمرانی): جب تک قائدین کہلانے والا طبقہ صرف اور صرف قومی مفادات اور ملکی سلامتی کو مقدم نہیں رکھے گا اُس وقت تک کچھ بھی آگے نہیں بڑھے گا۔ تحریک عدم اعتماد بلاشبہ حزب اختلاف کا آئینی و جمہوری حق ہے اور اپنے اس حق کے استعمال کے لئے وہ جو آئینی راستہ اختیار کرنا چاہے کر سکتی ہے لیکن کیا ملک کے حالات بالخصوص ماہ رمضان المبارک کی آمد اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے جیسے موقع پر ایسا کرنا درست ہے؟ اسی طرح تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لئے جمہوری طریقے ہی اختیار کئے جائیں۔ ایوان میں اپنی عددی اکثریت ثابت کرنے کے لئے ہر جائز اور قانونی طریقہ استعمال کرنا حکومتی جماعت کا حق ہے‘ جس پر بلاوجہ اعتراض کرنے سے حزب اختلاف اپنا اور قوم کا وقت ضائع کر رہی ہے لیکن یہ تمام تگ و تاز صرف ایوان کے اندر ہی ہو تو نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔
دھرنوں کی صورت میں اپنی اپنی طاقت کے اظہار کے لئے کارکنوں اور عوام جم غفیر بن کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑنے کی ترغیب دینا مثبت سوچ کی عکاسی نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں انارکی و تصادم پیدا ہونے کے امکانات زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی نے جس انداز میں ”شو آف پاور“ کے لئے کوشاں ہیں وہ کسی صورت بھی درست فیصلہ نہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی حد تک بات ٹھیک اور آئینی ہے کہ اِسے ارکان اسمبلی نے ہی کامیاب یا ناکام بنانا ہے۔ عام آدمی کے نکتہ نظر سے قومی سیاسی صورتحال کو دیکھا جائے تو ایک عام آدمی کا اِس پورے منظرنامے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اس لئے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ فریقین اپنے اپنے فیصلوں پر نظرثانی کریں اور اپنی تمام تر کوششوں اور کاوشوں کا مرکز صرف اور صرف پارلیمنٹ کو بنائیں کیونکہ سڑکوں پر جلسے جلوس اِس لحاظ سے پرخطر ہیں کہ اِن سے ماورائے آئین و قانون اقدامات کی گنجائش پیدا ہوتی ہے اِس لئے تحریک انصاف کو اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کا موقع دینا چاہئے۔تیسری بات (طرز بیان و خطبات): سیاسی کھینچا تانی اور ایک دوسرے کیخلاف الزام تراشی کا دراز سلسلہ جہاں تک پہنچ چکا ہے‘ اِسے مزید بڑھنے سے روک لیا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ ماحول میں تناؤ اور کھچاؤ کی شرح ”قومی برداشت‘‘سے بہرحال زیادہ ہو چکی ہے۔ تلخیاں بڑھ رہی ہیں۔