روس تاحال اپنے توقعات کے برعکس یوکرین کو شکست نہیں دے سکا۔ اس پر شدید پابندیاں عائد ہیں اور یوکرینی عوام اور فوج کی مزاحمت جاری ہے تو کیا روس مشتعل ہوکر پولینڈ یا کسی دوسرے یورپی ملک پر حملہ کرسکتا ہے؟روس نے جھنجھلاہٹ اور غیض و غضب میں یوکرین کے مختلف شہروں پر خطرناک گولہ باری شروع کردی ہے جس سے سینکڑوں یوکرینی مارے گئے اور تیس لاکھ یوکرینی پڑوسی ممالک میں پناہ گزین ہوگئے ہیں جن میں تقریباً آدھے پولینڈ چلے گئے ہیں۔پولینڈ نے پناہ گزینوں کی مدد کے لئے ایک ارب سے زیادہ یورو کا فنڈ قائم کردیا ہے۔ وہ ہر آنے والے پناہ گزین کو مفت رہائش، خوراک، علاج وغیرہ کے ساتھ پچاس پاؤنڈ بھی دے رہا ہے۔ پولینڈ کے عوام اور حکومت پناہ گزینوں کی مدد کررہے ہیں کیونکہ وہ دوسری عالمی جنگ میں بیرونی حملے اور قبضے کے غم اور مشکلات سے گزرے تھے مگر اس وقت انہیں کسی نے مدد یا پناہ نہیں دی تھی۔ ایسا لگتا ہے پورا پولینڈ پناہ گزینوں کی مدد میں شریک ہے۔ وارسا میں ہوٹل مفت‘رہائش جبکہ انشورنس مفت انشورنس دے رہے ہیں۔ پولینڈ عرصے سے یورپ کو درپیش روسی خطرے کا سب سے بلند آہنگ مدعی رہا ہے۔ اس کے وزیر اعظم ماٹیوسز موراویچکی کے مطابق یوکرین پر روسی حملہ یورپ کیلئے زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔
پچھلے روز انہوں نے چیک ری پبلک اور سلوینیا کے وزراء اعظم کے ساتھ اکٹھے یوکرین کا دورہ کیا۔ مورا ویچکی کے مطابق یوکرین کی جنگ صرف ہماری نہیں بلکہ ہمارے بچوں کے مستقبل کی جنگ ہے جو آمریت سے پاک دنیا میں رہنے کا حق رکھتے ہیں۔ وہ روس پر تیل، گیس اور کوئلہ کی برآمد سمیت ہر ممکن سخت پابندیاں عائد کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو خدشہ ہے کہ رومانیہ اور پولینڈ میں نصب نیٹو میزائل دفاعی نظام سے روس پر ٹاماہاک میزائل داغے جاسکتے ہیں اور پولینڈ کی روس مخالف بیان بازیوں پر بھی وہ خوش نہیں ہیں۔ یوکرین کو مغربی ممالک کا زیادہ تر اسلحہ پولینڈ کے راستے ملتا ہے اور پیوٹن اس سلسلے کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ خدشہ موجود ہے کہ صدر پیوٹن امریکہ اور یورپی ممالک کی پابندیوں، یوکرین کو مغربی عسکری امداد، نیٹو کی مشرقی جانب توسیع کے عزائم اور روس کے اردگرد اپنے مستقل عسکری اتحادی بنانے کی کوشش پر مشتعل ہوکر عنقریب دیگر محاذ کھول سکتے ہیں جن میں پولینڈ سرفہرست ہے۔ یاد رہے یوکرین کا شمالی پڑوسی بیلا روس ہے جو روس کا اتحادی ہے۔ اس کے مغرب میں پولینڈ، سلویکیا اور ہنگری ہیں جبکہ رومانیہ اور مالدوا اس کے جنوبی پڑوسی ہیں۔ پچھلے دنوں جب روس نے پولینڈ کی سرحد سے محض دس میل کے فاصلے پر موجود ایک یوکرینی عسکری مرکز پر میزائل حملے کئے اور جس میں پینتیس افراد جاں بحق ہوئے تو اسے روس کی جانب سے پولینڈ کو اطاعت گزار بنانے اور خبردار کرنے کا پیغام سمجھا گیا۔تاہم پولینڈ نیٹو کا رکن ہے اور اگر اس پر حملہ ہوا تو نیٹو اور روس کے مابین جنگ شروع ہوسکتی ہے کیونکہ اس سے نیٹو کا شق پانچ موثر ہوجائے گا جس کے تحت کسی نیٹو رکن پر حملے کو پورے نیٹو پر حملہ سمجھا جاتا ہے اور نیٹو ممالک اجتماعی سلامتی قانون کے تحت جارح کا مقابلہ متحد ہوکر مقابلہ کرتے ہیں۔
امریکہ کے قومی سلامتی مشیر جیک سولیوان کے مطابق اگر نیٹو کے کسی رکن کے علاقے پر عسکری حملہ ہوا تو ہم نیٹو کی مکمل طاقت کے ساتھ مشترکہ جواب دیں گے۔اگرچہ پولینڈ میں عام خیال یہی ہے کہ یوکرین پورے یورپ کی سلامتی کیلئے لڑرہا ہے اور اگر وہ ہار گیا تو پولینڈ کو روسی جارحیت اور قبضہ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے مگر پولینڈ بوجوہ کوئی عملی عسکری مدد نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا مطلب اس کی روس سے جنگ اور پھر تیسری عالمی جنگ ہوگی۔روس کیلئے بھی ایسا کوئی اقدام مشکل اور خطرناک ہوگا کیونکہ وہ یقیناً یوکرین سے تو لمبے عرصے تک لڑسکتا ہے مگر امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی اور دیگر نیٹو ممالک کی مشترکہ عسکری طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔کسی ممکنہ روایتی جنگ میں روس اور نیٹو ممالک کی طاقت کے مابین اس عدم توازن کا تقاضا یہ ہوگا کہ خود کو شکست سے بچانے کیلئے روس کو ممکنہ طور پر جوہری ہتھیار استعمال کرنے پڑیں گے جسکا نتیجہ عالمی جنگ اور دنیا کی تباہی ہوگا۔تاہم روس اگر مزید حملوں کا متمنی ہے تو وہ کسی نیٹو رکن ملک پر حملے کے خطرناک نتائج کے پیش نظر شاید کسی غیر نیٹو مشرقی یورپی ملک مثلاً مالڈووا یا جارجیا پر حملہ کرسکتا ہے۔یوکرین کے صدر ولادیمیر زلنسکی نے سترہ مارچ کو امریکی کانگریس سے آن لائن خطاب میں یوکرین کیلئے مزید اسلحہ، طیارہ مخالف بیٹریوں اور روس پر مزید سخت پابندیاں عائد کرنے، یوکرین کی سلامتی کیلئے مزید اقدامات کرنے اور امریکی صدر کو دنیا میں امن کا رہنما بننے کی اپیل کی۔
امریکہ نے کہا ہے وہ یوکرین کو فوجی ساز وسامان کی فراہمی جاری رکھے گا جبکہ روس نے اعلان کیا ہے کہ یوکرین کو عسکری امداد کے ایسے قافلے اس کیلئے جائز ہدف ہوں گے۔روسی صدر پیوٹن کے جارحانہ مزاج کو دیکھتے ہوئے امریکہ پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہا ہے۔مثلاً پولینڈ نے پچھلے ہفتے اعلان کیا کہ وہ اپنے مگ29 جنگی طیارے جرمنی میں واقع ایک امریکی ائربیس میں بھیجے گا تاکہ یوکرینی پائلٹ انہیں روس کے خلاف استعمال کرسکیں۔ تاہم روس نے یوکرین کو فضائی اڈے دینے کے متمنی ممالک کو خبردار کردیا کہ ایسا کرنا انتہائی ناپسندیدہ اور خطرناک صورتحال پر منتج ہوسکتا ہے۔ امریکہ نے اس کے بعد پولینڈ کی پیشکش ٹھکرا دی۔ ظاہر ہے اگر امریکہ نے اس پیشکش کو قبول کیا ہوتا تو پھر پولینڈ پر روسی حملے اور اس کے بعد روس اور نیٹو ممالک کے درمیان جنگ کا امکان بڑھ جاتا مگر امریکہ کی دانائی اور احتیاط کی وجہ سے ایسا نہ ہوا۔ پھر زلنسکی چاہتے تھے یوکرین پر نو فلائی زون بنا دیا جائے مگر امریکہ اور نیٹو رہنماؤں نے نوفلائی زون کا مطالبہ بھی مسترد کردیا کہ اس طرح نیٹو پائلٹ روس کے براہ راست مقابلے میں آجائیں گے۔