سیاست: تصادم نہیں 

مفکر شاعر جان ایلیا نے کہا تھا ”اُس سے ہر دم معاملہ ہے مگر …… درمیاں کوئی سلسلہ ہی نہیں۔“ بس یہی بیان حزب اقتدار و حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے مابین بھی دکھائی دیتا ہے کہ اِن کا ہر دم معاملہ تو ہے لیکن احترام پر مبنی آپسی سلسلے (راہ و رسم) نہیں رہے۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف حزب اختلاف کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ سے پہلے ہی ”سیاسی انتشار“ انتہا درجے تک جا پہنچا ہے! کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت کی بساط قومی اسمبلی کے ایوان میں اس کی عددی اکثریت کی بنیاد پر ہی کھڑی ہوتی ہے جس کے لئے حکومت کی تشکیل کے تمام مراحل کی آئین کی دفعہ 90 اور اس کی ذیلی دفعات میں وضاحت کر دی گئی ہے اور جب اپوزیشن بنچوں کو محسوس ہو کہ وزیراعظم ہاؤس میں عددی اکثریت کھو چکے ہیں تو آئین کی دفعہ 95(1)کے تحت وہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرسکتے ہیں جس پر ووٹنگ کے لئے سپیکر قومی اسمبلی کو آئین کی دفعہ پچانوے کی ذیلی دفعہ دو کے تحت سات دن کے اندر‘ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا ہوتا ہے جو ایک لازمی آئینی تقاضا ہے جبکہ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد وزیراعظم کا اسمبلی توڑنے کیلئے صدر مملکت کو ایڈوائس دینے کا آئینی اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کو بے چین تو رکھا ہی تھا تاہم ایسے میں سیاسی صورتحال نے جو رخ اختیار کیا ہے اس سے عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہوتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی گرما گرمی میں معاشی صورتحال کا مزید خراب ہونا یقینا باعث تشویش ہوگا کہ جس سے عوام براہ راست متاثر ہوں گے۔ اصولی طور پر تو حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو اخلاقیات اور صبر وتحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے اور عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے جو بھی آئینی اور قانونی تقاضے ہیں‘ ان کی تعمیل ہونی چاہئے‘ تاکہ جمہوریت کمزور نہ ہو اور اب چونکہ جمہوریت ہی اختیار کر لی گئی ہے تو اِس کو مکمل نافذ کرنے اور اِسے ناکامی کی بجائے کامیاب بنانے پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔ یقینا جمہوریت و ہ طرز عمل ہے جس میں عوام کے نمائندے ان کے مسائل حل کرنے کے لئے ایوانوں میں قانون سازی کرتے ہیں اور یوں عوام کے ذریعے حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے۔ تاہم اس تمام پریکٹس میں اولین ترجیح ایسے حکومتی ڈھانچے کی تشکیل ہی ہے جس سے ثمرات سے عام آدمی مستفید ہو اور اسے زندگی میں آسانیاں اور سہولیات ملیں۔ اب اگر یہ صورتحال سامنے آئے کہ ہمہ وقت ہنگامہ خیزی ہو اور ایک طرف حکومت وقت کو یہ پریشانی لاحق ہو کہ اسے کسی بھی وقت عدم استحکام سے دوچار کیا جا سکتا ہے تو پھر ا سکی توجہ عوامی بہبود کے منصوبوں سے ہٹ کر اپنے تحفظ پر ہوگی۔ اس طرح حزب اختلاف کو جو مینڈیٹ ملا ہے وہ بھی اس کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ حکومت کے ان اقدامات میں ہاتھ بٹھائے جو عوام کے فائدے کے ہیں اور ان اقدامات سے روکے اور مزاحمت کرے جو ان کی دانست میں عوام مسائل میں اضافہ کے موجب بن سکتے ہیں۔ موجودہ حالات کودیکھتے ہوئے کہ یہ کہناغلط نہیں ہوگا کہ اس وقت دونوں طرف سے اگر کوئی نظر انداز ہے تو وہ عام آدمی ہے جس کی نظریں دونوں پر جمی ہیں اور سوال کرتا ہے کہ اس ہنگامہ آرائی سے اسے کیا لینا دینا۔ اس کی کامیابی یا ناکامی کا اعلان وہ اگلے الیکشن میں پھر اپنے ووٹ سے کریگا۔یہ جمہوریت ہے اور اس کا تسلسل ہی اچھے نتائج سامنے لاسکتا ہے۔