سیاسی بحران کے منفی اثرات

روس یوکرین جنگ کا خاتمہ اب ان ہی شرائط پر ہوتا نظر آتا ہے جن کا مطالبہ روس کرتا آیا ہے۔اور ایسی خبریں آرہی ہیں کہ یوکرین کے صدر ملک کو غیر جانبدار بنانے پر تیار ہوگیا ہے کہ وہ یورپ اور امریکہ کے ساتھ کسی فوجی معاہدے میں شریک نہیں ہوگا۔ سوئٹزر لینڈ اور فن لینڈ جیسے ممالک اس کی بہترین مثال ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو یوکرین کا صدر اگر یہ فیصلہ جنگ سے پہلے ہی کرتا تو بہتر ہوتا تاہم امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اسے ایسا کرنے نہیں دیا تھا۔ اب بالاخر اسے حقیقت سمجھ آنے لگی۔ جہاں تک روس کا تعلق ہے توروس کا جغرافیائی محل وقوع قدرت نے کچھ اس طرح بنایا ہوا ہے کہ جنگ کی صورت میں وہ اس کے دشمنوں کے حملوں کی آڑ میں آتا ہے اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سردیوں کے موسم میں جب کبھی بھی کسی دشمن نے روس پر حملہ کیا اس نے منہ کی کھائی۔ نپولین اپنے وقت کا بہت بڑا جرنیل تھا وہ جب روس سے موسم سرما میں جنگ کرنے لگا تو اس کو اس کے جرنیلوں نے لاکھ سمجھایا کہ وہ ایسا کرنے سے باز رہے پر وہ نہ مانا اور اس کا انکار اس کی شکست کا سبب بنا۔تاریخ نے اپنے اپ کو اس وقت دہرایا جب ہٹلر کو دوسری جنگ عظیم میں شکست ہوئی جس کی ایک بڑی وجہ روس کا وہ برفانی موسم تھا جس نے جرمنی کے فوجیوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ ہٹلر کو تو خیر اس کے کئی جرنیلوں نے یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ بیک وقت اپنے لئے ایک سے زیادہ محاذ نہ کھولے ایک طرف اس نے امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک کے ساتھ پہلے سے پنگا لے رکھا ہے اور دوسری طرف اب وہ روس کے خلاف محاذ کھول رہا ہے ہٹلر شکی مزاج شخص تھا وہ اپنے جرنیلوں کی وفاداری پر شک کرنے لگا دوسری جنگ عظیم میں پھر جو اس کا حشرہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ روس رقبے کے حساب سے دنیا کا وسیع ترین ملک ہے گو کہ اس کی آ بادی اس کے رقبے کے حساب سے کافی کم ہے۔ دوسری طر ف روس کی ایک تاریخ ہے جنگوں میں مزاحمت کی، اس پر جب بھی جنگ مسلط ہوئی اس نے بے جگری سے لڑی اور اس حقیقت کو نہیں دیکھا کہ مقابلے میں کتنی اقوام کھڑی ہیں۔ اس وقت بھی روس نے اپنے مفادات اور ملک کے تحفظ کیلئے جس جنگ کا آغاز کیا ہے وہ آسان ہر گز نہیں تھی، تاہم حالات پر نظر رکھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ روس کے پا س اس کے سوا دوسرا راستہ ہی نہیں تھا۔ یا تو امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کو روس کے خلاف اڈے کے طور پر استعمال کرتے اور یا روس یوکرین کو طاقت کے ذریعے امریکہ کے چنگل سے آزاد کرتا۔روس نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔اب کچھ ملکی حالات کا تذکرہ ہوجائے جہاں عدم اعتماد کی تحریک نے سیاسی گرما گرمی کوعروج پر پہنچا دیا ہے اور ایک طرح سے پوری توجہ دونوں طرف سے اسی پر مرکوز ہے۔ دوسری طرف تحریک عدم اعتماد اور سیاسی بحران سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے جسے کورونا وباء اور یوکرین روس تنازعے کے باعث عالمی کساد بازاری نے پہلے ہی دباؤ کا شکار کیا تھا۔حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان اس سیاسی میچ میں کون جیتے گا، اس سے قطع نظر، ماہرین کا خیال ہے کہ اس تنا ؤکی وجہ سے ملکی معیشت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے سیاسی عدم استحکام نے ایک جانب سٹاک مارکیٹوں کو شدید متاثر کیا ہے تو دوسری جانب پاکستانی روپے کی قدر بھی اس سے متاثر نظر آتی ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب پاکستان کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈسے ساتویں نظر ثانی جائزے کے مذاکرات بھی جاری ہیں سیاسی عدم استحکام کسی بھی لحاظ سے نیک شگون نہیں کیونکہ موجودہ سیاسی بحران کے باعث آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں مشکلات درپیش آ رہی ہیں اور آئی ایم ایف پروگرام اگر خطرے میں پڑ گیا تو پاکستان کیلئے معاشی مشکلات بڑھ جائیں گی۔اس کے ساتھ ساتھ ملک میں کاروباری حلقے بھی اس صورتحال پر فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔خبر تو یہ بھی آئی ہے کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج کے ایم ڈی کے مطابق ایک بڑی ٹیکنالوجی کمپنی نے سیاسی بحران کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ میں داخلے کے منصوبے کو فی الحال موخرکر دیا ہے دوسری صورت میں اس کمپنی کی شراکت سے سٹاک ایکسچینج کو دور رس فوائد حاصل ہوتے۔ یہ بھی ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ ملک میں عموما پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت مالی سال کی آخری سہ ماہی کے شروع یعنی مارچ کے مہینے میں زیادہ فنڈز ریلیز ہوتے ہیں اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر کام تیز ہوجاتا ہے، موجودہ بحران نے اس معاملے میں بھی منفی کردار ادا کیا ہے۔